اوّل ہیں اس جہان کے سب بے بسوں میں ہم
رنجیدہ و غمیں ہیں سبھی دل جلوں میں ہم
اچھا ہوا کہ آپ نے ہم کو جگا دیا
جینے لگے تھے خواب کے ورنہ فسوں میں ہم
گر عشق ہو تو یوں ہو کہ پھر اور کچھ نہ ہو
بہنے لگیں لہو کی طرح سے رگوں میں ہم
مرنے کو جی رہے ہیں کہ جینے کو مر رہے
الجھے ہیں صبح و شام انہیں الجھنوں میں ہم
آدم تمہاری ایک خطا کے جواب میں
بھیجے گئے ہیں خلد سے دشتِ جنوں میں ہم
دل کہہ رہا ہے کچھ تو خرد کہہ رہی ہے کچھ
واللہ پھنس گئے ہیں یہ کن آفتوں میں ہم
پہنچے حیات و زیست کے رازِ نہاں تلک
خوشبو کو ڈھونڈتے ہوئے سوکھے گلوں میں ہم
گمراہ کر گئے وہ ہمیں راہِ راست سے
کرتے رہے شمار جنہیں ناصحوں میں ہم
سنتے ہیں واں نجاتِ غمِ دو جہان ہے
دیکھیں تو جاکے آج ذرا میکدوں میں ہم
آئیں وہ یا کہ ان کا کوئی خط ہی آ رہے
بیٹھے ہیں گھر سجائے سحر حسرتوں میں ہم