شکلِ انسانی نہیں دیکھی اگر تلوار کی
دیکھیے میداں میں شورش حیدرِ کرّار کی
اب زمانے میں ضرورت ہی کہاں ہتھیار کی
ہر زباں رکھتی ہے خود میں تند خو تلوار کی
اپنے منصف آپ ہی پیدا کریں اہلِ خرد
کون سنتا ہے بھلا اس دور میں لاچار کی
عرضِ مطلب پر ہمارے ہجر کا فرمان ہے
آہ یہ کیسی دوا ہے عشق کے بیمار کی
پھر جفائے نو کوئی قسمت میں اپنی آئے گی
بدلی بدلی ہے فضا کچھ آپ کے گفتار کی
کوئی حرکت، کوئی جنبش، کوئی جذبہ یاں نہیں
کیوں ضرورت آپ کو ہے اس دلِ بیکار کی
دل کا خوں کرتےرہیں گے آبرو کے واسطے
لاج رکھنی ہے ہمیں اک شخص کی دستار کی
یہ زبوں حالی، اداسی اور یہ رنگِ رخ مرا
یہ نشانی ہیں ازل سے غم کے پیرو کار کی
رفتہ رفتہ یہ تمہارے دل کو ساکت کر نہ دے
کچھ خبر رکھیے سحر اس رنج کی رفتار کی۔