پلٹ کے آئی نہ رونق ہمارے گھر کے لئے
اداسیاں ہی بچی اپنے بام و در کے لئے
وہ آندھیوں سے لڑے کس طرح ثمرکے لئے
یہ مرحلہ بھی بڑا سخت ہے شجر کے لئے
اگر پڑوس میں بھوکے یتیم رہتے ہوں
تو کیسی عید بھلا تیرے ایک گھر کے لئے
جو ایک ساتھ سپیرے لگیں بجانے بین
تو ناگ سر نہ اُٹھائیں گے عمر بھر کے لئے
پرندے چھوڑ گئے آشیاں خزائوں میں
انھیں خیال نہ آیا کبھی شجر کے لئے
گزر گئی ہے وہ بڑھیا جو دیپ رکھتی تھی
دیا جلائے گا اب کون رہ گزر کے لئے
میں اپنے خاک کے پیکر سے خوف کھاتا ہوں
ہوائو !آئو مجھے لے چلو سفر کے لئے
جلا کے اُس کے بدن کو یہ داغ دیتے ہیں
یہ کھیل سارا ستاروں کا ہے قمر کے لئے
خدا کے واسطے ان سے نہ پھیر آنکھوں کو
تڑپ رہے ہیں یہ دیوانے اک نظر کے لئے