اس کو خلوت کا میری پاس نہیں
کیسے کہہ دوں جی اداس نہیںنا شناسا کوئی اگر ہو بھی
میرے نالوں سے نا شناس نہیںایک میں ہوں کہ اس کے گرد و نواح
ایک وہ ہے کہ آس پاس نہیںکیا ہوا غم کے پاسداروں کو
کس لیے محوِ حزن و یاس نہیںچاہتا ہوں جسے قریب اپنے
اک وہی شخص میرے پاس نہیںبر سرِ بزم ہے وہ جلوہ نما
حیف! اس کو حیا کا پاس نہیںخون کو خون جو نہیں کہتے
ایسے لوگوں سے کوئی آس نہیںگالیاں بھی نہیں قبول انہیں
اور عزت بھی ان کو راس نہیںساقیا جام اسی کو دیتا ہے
قطرہ بھر کی بھی جس کو پیاس نہیںناف پیالے سے اب پلا بھی دے
اب تو ہاتھوں میں میرے کاس نہیںکون ہم سا ملول ہے جگ میں؟
جز ملال اپنی کچھ اساس نہیںبعد صائنؔ کے اتنا یاد رہے
کوئی عاشق کا غم شناس نہیں