یہ سفر ہے شاعرِ مشرق علامہ اقبال کا شاعرِ سے شاعر و فلسفی اقبال تک کا۔
علامہ اقبال جب سن ۱۹۰۷ میں لندن سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر واپس ہندوستان لوٹے تو اس عزم کے ساتھ لوٹے کہ
میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شر فشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہوگا
اور اس اعتماد کے ساتھ واپس ہوئے کہ
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا۔
اس اعتماد و عزم کے ساتھ آپ ہند واپس لوٹے اور آپ نے اپنی عملی زندگی میں قدم رکھا۔ شاعری تو آپ بچپن ہی سے کر رہے تھے مگر جب اس میں آپکا فکر و فلسفہ شامل ہوا تو وہ شاعری ایسی شاعری بنی جس میں قوم کے لئے اہم پیغام اور سبق مخفی ہونے لگا اور آپکی شاعری بے غرض و بے معنی نہ رہی۔ مزید یہ کہ آپکی شاعری میں آپکا فلسفہ صاف نمایاں ہوتا۔ آپ اس وقت کے پہلے ایسے شاعر تھے جس نے مربوط و منضبط فلسفے کو شعر کے سانچے میں ڈھال دیا۔ آپ نے یہ کام اس حال میں کیا کہ ایک طرف تو شاعر کو مشورہ دینے والے ناقدین نظر آتے تھے کہ وہ فلسفہ و پیغام سے جتنی دور رہیں اتنا ہی بہتر ہے کیونکہ شاعری فلسفہ کی متحمل نہیں ہوسکتی،تو دوسری طرف آپ جیسے عظیم شاعر نے یہ بتلایا کہ فلسفے ہی سے فن میں آب و تاب پیدا ہوتی ہے۔
شاعر و مفکر اقبال کے افکار میں فلسفۂ خودی ایک خاص اہمیت کا حامل ہے اور آپکے کلام میں یہ لفظ کبر و غرور سے کوئی واسطہ نہیں رکھتا چنانچہ آپ کہتے ہیں:
خودی کی تندی و شوخی میں کبر و ناز نہیں
جو ناز ہو بھی تو بے لذت نیاز نہیں۔
اور اسرار خودی کے دیباچہ میں کچھ یوں صراحت کرتے ہیں کہ یہ لفظ بمعنی غرور استعمال نہیں کیا گیا جیسا کہ عام طور پر اردو میں مستعمل ہے۔ اسکا مفہوم محض احساس نفس یا تعین ذات ہے۔
خودی اقبال کے الفاظ میں وحدت وحدانی یا شعور کا وہ روشن نقطہ ہے جس سے تمام انسانی تخیلات و تمنیات مستنیر ہوتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ خودی ایک غیر مادی شے ہے اور ادراک کے ذریعے اسکی حقیقت سمجھنا ممکن نہیں، ہاں البتہ وجدان کے ذریعے اسکا احساس ممکن ہے۔
اقبال کے پروفیسر نکلسن کے نام ایک خط میں یہ ہے کہ اقبال نے خودی کا ترجمہ پرسنالٹی ( شخصیت ) بھی کیا ہے۔ اس خط کے مطالعہ سے خودی کا جو مفہوم واضح ہوتا نظر آیا ہے اسے یوں کہیئے کہ ہر شخص کو قدرت کی طرف سے کچھ صلاحیتیں ملی ہوتی ہیں جن سے وہ خود بھی پوری طرح واقف نہیں ہوتا۔ ان صلاحیتوں اور لیاقتوں کے مجموعے کو خودی کہا جا سکتا ہے، جن کے سبب انسان کی شخصیت متعین ہوتی ہے ۔جس انسان نے اپنے اندر ان پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچان لیا گویا اس نے رازِ زندگی کو پالیا ۔ان صلاحیتوں کی دریافت بقول فلسفی اقبال کے اثباتِ خودی ہے اور وہ اس لئے کہ اقوام عالم کی تاریخ کے مطالعے سے اقبال پر یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوگئی تھی کہ جن قوموں میں احساسِ خودی باقی نہ رہا وہ قومیں فنا ہوگئیں یا زوال کا شکار ہوگئیں اور جن قوموں نے اپنی خودی کو مستحکم کرلیا انھیں بلند اقبالی نصیب ہوئی۔ نفیِ خودی، مشرقی اقوام اور خاص طور پر مسلمانوں کے رگ و پے میں سرایت کر گئی تھی۔ چنانچہ یہ اقوام کشمکش حیات سے گریزاں ہوکر روہبانیت اور ترکِ دنیا کی طرف مائل ہوگئیں ۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو اس پستی سے نکالنے کا تہیہ کیا۔ اس مقصد کے لئے انھوں نے نفیِ خودی کی ملامت کی اور اثباتِ خودی کی تلقین کی۔
اقبال کا یہ شعر اس پیغام کی بہترین عکاسی کرتا ہے:
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
قطرہ ہے لیکن مثالِ بحر بے پایاں بھی ہے
کیوں گرفتارِ طلسمِ ہیچ مقداری ہے تو
دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکتِ طوفاں بھی ہے۔