بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
بیشک موت بر حق ہے۔ ہر نفس کو اس سے دوچار ہونا ہے ۔ یہی اس کارگاہ عالم کا نظام و دستور ہے کہ جس کی آمد ہوئی اسکا رخصت ہونا بھی لازم ہے۔ ہر روز نہ جانے کتنی نئ کلیاں چٹختی ہیں اور بے شمار خوبصورت پھول مرجھا کر شاخچوں سے جدا ہو کر خس و خاشاک میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ غرض فنا ہر شئ کا مقدر اور اصول حیات کا جزو لا ینفک ہے ۔اس سے کسی کو مفر نہیں ۔ مگرموت اسی کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس!
علامہ یوسف عبد اللہ القرضاوی (9 ستمبر 1926ء – 26 ستمبر 2022ء) مصری نژاد، کا سانحہ ارتحال ہم سب کے لئے حزن و الم اور رنج و کرب کا سبب تھا،وہیں علمی دنیا کے لئے سوگ کا مقام تھا۔آپ کی وفات کی خبر ہم سب کے لئے کسی صاعقہ سے کم نہیں تھی ۔ کیونکہ وہ صرف ایک عالم ہی نہیں تھے بلکہ انکی شخصیت ہمہ جہت خوببوں کی حامل تھی۔ وہ مجدد تھے، مجتہد تھے،مفکر ملت اور زمانے کے نبض شناس تھے ۔ آپ کی پوری زندگی نمونہ اسلاف تھی ۔ آپ ممتاز ادیب ،موثر خطیب بھی تھے حق گوئی و بےباکی آپ کا طرہ امتیاز تھا ۔
آپ سو سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔ آپ کا اسلوب تحریر نہایت شائستہ ، دلنشیں اور فصیح ہوتا تھا۔اکثر کتابوں کے ترجمے دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی آپ کے چاہنے والے لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ علامہ القرضاوی کے معتقدین ومحبین کا ایک بڑا حلقہ ہے جو عرب ممالک سے لے کر یورپ، امریکہ اور برصغیر تک پھیلا ہوا ہے۔
علامہ قرضاوی علماء کی عالمی تنظیم “انٹرنیشنل یونین فار مسلم اسکالرس” کی موسس اور سابق سربراہ وموجودہ سرپرست بھی تھے۔ آپ مصری نژاد، قطری شہریت یافتہ مشہور اور ممتاز ترین مسلمان عالم اور فقیہ تھے، دنیابھرکے علماء میں آپ کا مقام سر فہرست تھا۔علامہ عبقری شخصیت کے مالک تھے آپ نےعلمی سمندر کے جمود و تعطل کو توڑ کر انہیں تلاطم خیز موجوں میں تبدیل کرنے کی حتی المقدورسعی کی۔ علامہ اس دور کی وہ نمایاں شخصیت تھے جنہوں نے لکیر پر لکیر کھینچنے کے بجائے اسلاف کے عظیم علمی اور فقہی ذخیرے کو پیش نظر رکھ کر اس کا رشتہ موجودہ زمانہ سے استوار کیا ۔
ان کی خدمات محض تحریر و خطابت تک محدود نہیں تھیں بلکہ آپ مرد مجاہد اور باطل طاقتوں کے لئے شمشیر بے نیام تھے۔ وہ اپنی شریعت اور اسلامی نظام کے پاسبان تھے، حق گوئی و بیباکی انکا وطیرہ خاص تھی، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سنت یوسفی ادا کرتے ہوئے قید و بند کی صعو بتیں بھی برداشت کیں ۔اور اخوان المسلمین کی حمایت کی پاداش میں ان کو جلاء وطن بھی ہونا پڑا۔
الغرض آپ کی کی شخصیت کا ایک پہلوخالص علمی و فکری ہے جب کہ دوسرا پہلو عملی اور تحریکی ہے۔ مجموعی طور پر اس وقت عالم اسلام میں سب سے بڑے اسلامی اسکالر، فقیہ اور عالم دین کی حیثیت آپ کو حاصل تھی۔ آپ کی وفات پر ایک صدی کا خاتمہ ہوگیا جو کہ امت کا ایک عظیم خسارہ ہے۔
باغ عالم کا۔۔۔۔۔وہ پیارا گل کہاں
تھا معطر جس سے سارا گلستاں
لوگ جاتے ہیں۔۔۔۔۔ پتہ چلتا نہیں
تم تو سونا ۔۔۔۔کر گئے سارا جہاں
جامعۃ المومنات علامہ القرضاوی علیہ الرحمہ کی نظر میں
1996ء میں جب علامہ القرضاوی ہندوستان آئے تو بانی جامعہ المومنات الاسلامیہ حضرت مولانا محمد رضوان ندوی نور اللہ مرقدہ صاحب نے انکے لئے ایک اعزازی نشست رکھی بانی جامعہ کی دعوت پرعلامہ یوسف القرضاوی صاحب جامعہ المومنات الاسلامیہ تشریف لائے ، وہاں کی طالبات سے پردہ میں خطاب کیا، اور طالبات کی علمی لیاقت و کارکردگی اور جامعہ کے نظم و ضبط کا معائنہ کیا ۔ جس سے وہ بے حد متاثر ہوۓ انہوں نے مادر علمی کی فکر کو سراہتے ہوئے اپنی بیش قیمتی دعاوں کے ساتھ نیک نیتی کا اظہار کیا ۔ پھر ندوہ جاکر بھی انہوں نے طالبات کے عربی لب و لہجہ کی بہت تعریف کی اور مومنات کو ندوۃ الطالبات کے لقب سے ملقب کیا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ ترکی کے ایک پروگرام میں بھی بانی جامعہ سے ملاقات کے دوران انہوں نے فرمایا ،کہ ہندوستان میں خواتین میں عربی زبان کے تعلق سے امید کی ایک کرن مومنات کی شکل میں نظر آئی۔
مادر علمی کے مشاہدہ کے بعد مولانا کے چند تاثرات تحریری شکل میں آج بھی محفوظ ہیں ۔ قارئین کی آسانی کے لئے اسکا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:
“الحمدللہ والصلاہ و السلام علی رسول اللہ و علی آلہ و صحبہ و من والی و بعد!
“اللہ تبارک و تعالی نے مجھے جامعہ المومنات الاسلامیہ (لکھنؤ) کی زیارت کا موقع میسر فرمایا جسکے نگراں برادر گرامی محمد رضوان ندوی ہیں ۔ مجھے اس جامعہ نے قلبی فرحت بخشی، میں نے اسمیں قابل ذکر علمی و عملی سرگرمیوں کو محسوس کیا ۔ میں نے وہاں بعض طالبات کا کلام سنا تو میں نے ان میں آفاقی وسعت اور اسلام سے مضبوط وابستگی کو پایا۔ وہاں اس بات نے میرے دل کو طمانیت بخشی کہ جامعہ کی مسجد میں مرد و خواتین کے لئے علیحدہ علیحدہ فلورز (منزلیں) بنی ہوئ ہیں چونکہ ہندوستان میں عام طور سے مسجدوں میں عورتوں کا داخلہ ممنوع ہے اس کی تطبیقی صورت مجھے اس مسجد میں نظر آئی جو کہ ایک احسن طریقہ ہے۔ میں اس جامعہ کے مستقبل کے لئے خوش ہوں جہاں قدیم صالح اور نفع بخش جد ت کا امتزاج دیکھنے کو ملا۔ مجھے اہل خیر حضرات سے امید ہے کہ وہ اس کے عظیم مقاصد کو بروئے کار لانے میں اسکی مدد کرینگے، جسکے لئے خدا انکے دلوں کو کھول دیگا۔اللہ تعالی اس کے جملہ معلمین ومعلمات اورکارکنان کو جزائے خیر عطا کرےاور انکے کاموں میں آسانیاں پیدا فرمائے” ـ
الحمد للہ علامہ یوسف القرضاوی کی امیدوں کی وہ کرن آج مکمل آفتاب بن کر ہندوستان کے افق پر چھا چکی ہے ۔ جامعہ المومنات جو کہ اس وقت ایک ننھا سا پودا تھا اللہ کے فضل و کرم اور مخلص ذمہ داران کی انتھک کوششوں سے آج تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جہاں ہر سال تقریبا 150 طالبات فا رغ التحصیل ہوکر ہندوستان کے گوشے گوشے میں اشاعت دین کا فریضہ نبھانے کے لئے سرگرم عمل رہتی ہیں۔اللھم زد فزد۔
آپ کے انتقال پر ملال پر آپکی زندگی اور جامعہ المومنات سے آپ کے تعلق کے تمام نقوش ابھر کر سامنے آگئے ہیں ۔ بے شک انکی وفات پورے عالم کی موت کے مترادف ہے۔اس موقع پر مرحوم کے لئے بہترین خراج عقیدت یہی ہے کہ ہم بھی انکی طرح دین کے محافظ بنیں اپنے اوقات کی حفاظت کرکے علم میں گہرائی و گیرای پیدا کریں ۔ اور مومنات سے وابستہ انکی امیدوں پر پورا اترنے کی کوشش کریں۔
اخیر میں دعا ہے کہ اللہ حضرت مرحوم کے ساتھ خصوصی فضل کا معاملہ فرمائے اور امت کو انکا نعم البدل عطا فرمائے ۔ آمین