دکھ کے عالم میں بھی بس ایک سہارا دکھ ہے
خوش تو بس یوں ہیں کے اس بار تمہارا دکھ ہےجیت کر لاؤ تو خوشیوں کا سبب بنتا ہے
ہار جاؤ تو مرے یار ستارہ دکھ ہےآسماں والوں نے اس بار بھی دکھ بھیجا تھا
آسماں والوں نے اب کے بھی اتارا دکھ ہےتیرے ہاتھوں نے جو تھاما ہے کسی اور کا ہاتھ
میری آنکھوں کو یہی ایک نظارہ دکھ ہےگھر کی تعمیر کو بس ریت میسّر ہو جنہیں
ایسے لوگوں کو یہ دریا کا کنارہ دکھ ہےہم سے انکار محبّت کا بھلا کب تک ہو
اس کے چہرے پہ عیاں صاف ہمارا دکھ ہےایسی حالت میں تو مر جاتے ہیں اچھے اچھے
ہم نے جس حال میں اس بار گزارا دکھ ہےہم نے اس بار پلٹ کر نہیں دیکھا اس کو
اس نے اس بار مرا نام پکارا دکھ ہےدونوں کو ایک ہی زمرے میں رکھا ہے عرفان
ہم نے خوشیاں نہ سنواری نہ سنوارا دکھ ہے