مزا آنے لگا مجھ کو رقیبوں سے رقابت میں

مزا آنے لگا مجھ کو رقیبوں سے رقابت میں
سہولت مل گئی دیکھو مجھے کتنی محبت میں

ڈرے سہمے گھروں سے دور ان کا حال کیا ہوگا
وہی ڈر کر لپٹ جاتے تھے ماں سے جو مصیبت میں

تمہارا شہر چھوٹا ہے، کبھی تو سامنا ہوگا
زرا سا نور تم سے تب چرا لوں گا زیارت میں

اگر کچھ چاہیے تم کو حدیں سب توڑ ڈالو تم
نہ مانگو بس یہاں انکار ملتی ہے اجازت میں

قضا سے بھی محبت کا بہانہ ہے حسیں کتنا
کوئ کل کہہ رہا تھا حور بھی رہتی ہے جنت میں

محبت چیز کیا ہے خد تجھے معلوم ہوگا تب
کبھی جب ڈوب جاؤگے خدا کے تم عبادت میں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here