بے سود ہیں یہ خواب کہ تعبیر اب کہاں

بے سود ہیں یہ خواب کہ تعبیر اب کہاں
یارو! مرے کلام میں تاثیر اب کہاں

دکھلاؤ لاکھ زلفِ طرح دار کا یہ خم
آ جاؤں جس میں قید، وہ زنجیر اب کہاں

ٹھکرا دئیے گئے جو ترے آستاں سے ہم
لے جائے جانے دیکھئیے تقدیر اب کہاں ؟

پیتے گئے ہیں شیخ شرابِ دو آتشہ
کہتے گئے ہیں اس پہ کہ تطہیر اب کہاں!

خوابوں کے اس ہجوم میں اک خواب مر گیا
عالی تمہارے ذوق کی تعمیر اب کہاں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here