نیم زندگی مری اس جگہ گزر گئی
جس جگہ پہ شاخِ گل ٹوٹ کے بکھر گئیبزمِ حسن و عشق میں کچھ پتہ نہیں چلا
صبح کس پہر ہوئی رات کب گزر گئیچاند کی شبیہ میں روبرو جو تم ہوئے
اک کلی گلاب کی یک بیک نکھر گئیہاں اسے تو کھو دیا پر نہ کھوئے نقشِ پا
ہم ادھر ادھر گئے وہ جدھر جدھر گئیحالِ دل سنا دیا شعر گنگنا دیا
یاد کچھ دلا دیا شام یوں گزر گئییہ بھی کوئی بات ہے اب کہیں نہ جائیے
اب کہاں کو جائیں گے نیم شب گزر گئیخواہشوں کے دشت میں دم بدم زیاں ہوا
جسم کی تلاش میں روحِ بے اثر گئیان کی اک نگاہ کی خواہشیں تھی چاہ کی
وہ پلٹ گئے جو پھر آرزو بھی مر گئیبخت کی گرفت سے کھا گئے شکست ہم
آسماں نہ مل سکا حرصِ بال و پر گئیشاعری کا یہ چراغ عالی اب بجھا بھی دو
ختم قدرِ فن ہوئی قیمتِ ہنر گئی