اللہ کے نبی صلی االلہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : *أبوك ثلاثة إلي آخرالحديث* .
ترجمہ: تین شخص تمہارے والد ہیں – ایک وہ شخص جو تمہارے دنیا میں آنے کا ذریعہ بنا ، دوسرا وہ جس نے تمہیں اپنی بیٹی دی یعنی خسر اور تیسرا وہ جس نے تمہیں زیور تعلیم سے آراستہ کیا ، اور ان میں سب سے افضل وہ آدمی ہے جس نے تمہیں علم کی دولت سے مالامال کیا – اس حدیث سے استاد کی اہمیت بخوبی واضح ہوجاتی ہے –
استاد کی عظمت واہمیت کے تعلق سے بہت سے علماء کرام ، مفکرین ، دانشوروں اور شاعروں نے طویل مقالات و مضامین اور نظمیں لکھ کر ان کے وجود کو دنیا میں خدا کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت لوگوں کو باور کرایا ہے ، اور وہ اساتذہ جو بااخلاق ، بافیض ، باتوفیق ، منکسر المزاج ، حلیم الطبع ، شریف النفس ہوتے ہیں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کی تربیت کا بھی بھر پور خیال رکھتے ہیں ، ان کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے اور ایسے اساتذہ جب اپنے سرکاری و غیر سرکاری اداروں سے سبکدوش ہوتے ہیں تو ان کی کمی ادارے کے طالب علموں کے ساتھ ساتھ خود ادارے بھی محسوس کرتے ہیں اور جب تک ان کا نعم البدل ادارے کو نہ مل جائے ، اس وقت تک شدت سے ان کی کمی محسوس کی جاتی رہتی ہے اور موجودہ وقت جسے قحط الرجال کا دور کہاجاتاہے ، اس میں لاحقین سابقین کا نعم البدل تو در کنار بدل بھی نہیں قرار پاتے ہیں ، ایسے وقت میں کسی تجربہ کار استاد کا کسی ادارہ سے سبکدوش ہونا ادارہ کے لیے کتنا بڑا خسارہ ہوتا ہے ، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے –
یقیناً ایسے ہی نیک دل ، خوش اخلاق ، ملنسار ، متواضع اور تعلیم وتربیت کی دنیا میں نمایاں کارنامہ انجام دینے والے اساتذہ میں سے ایک استاد راقم الحروف کے والد *ماسٹر محمد آل حسن* ہیں –
والد محترم کی پیدائش *1965ء* کے آس پاس صوبۂ بہار کے ضلع ویشالی کے ایک دور افتادہ گاؤں “کاوا ڈیہہ ” میں ہوئی – والد کانام حافظ مجیب الرحمٰن تھا جو حافظ تھے اور اردو ، عربی اور فارسی زبان سے اچھی طرح واقفیت رکھتے تھے ، تقریباً تینتیس سال ضلع ویشالی کے ام المدارس مدرسہ احمدیہ ابابکرپور میں بحیثیت استاد خدمت انجام دے کر 2004 ء میں سرکاری ضابطہ کے مطابق ریٹائر ہوگئے ، اور 2019ء میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کرکے عالم فانی سے عالم جاودانی کو سدھار گیے –
والد محترم نے قاعدہ بغدادی اور نورانی قاعدہ وغیرہ کی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی ، پھر اپنے والد بزرگوار کے ساتھ مدرسہ احمدیہ ابابکرپور چلے گیے ، جہاں مولوی تک کی تعلیم حاصل کی ، مدرسہ احمدیہ ابابکرپور میں جن اساتذہ سے کسب فیض کا موقع ملا ، ان میں مفتی عبدالشکور صاحب قاسمی رحمۃاللہ علیہ ، مولانا عبدالمجید صاحب رحمۃ اللہ علیہ، مولانا آفتاب عالم صاحب مفتاحی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا رئیس اعظم صاحب رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے اسماء خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں – مدرسہ احمدیہ ابابکرپور کے بعد اعلی تعلیم کے لیے ملک کے مشہور ومعروف ادارہ” ندوۃ العلماء، لکھنؤ” تشریف لے گیے ، لیکن یہاں کی آب وہوا راس نہ آئی اور بیمار ہوگیے ، جس کی وجہ سے اس ادارہ میں فراغت تک حصولِ علم کی انتہائی حسرت و آرزو رکھنے کے باوجود صرف چھ ماہ ہی گزار کر مع ساز وسامان گھر لوٹنا پڑا اور پھر اساتذہ اور بڑوں کے مشورے سے بہار کے مشہور ادارہ مدرسہ “رحمانیہ سپول” میں داخلہ لے کر عالمیت تک تعلیم حاصل کی –
عالمیت سے فراغت کے بعد آپ نے عصری تعلیم کی طرف رخ کیا ، لنگٹ سنگھ کالج مظفرپور بہار سے انٹر ، بہار یونیورسٹی سے بی اے ، اسی یونیورسٹی سے پہلے فارسی میں ایم اے پھر اردو میں ایم اے اور سمستی پور بی ایڈ کالج سے بی ایڈ کی تعلیم حاصل کی ، بی اے میں بہار یونیورسٹی ٹاپ کرکے *گولڈ میڈلسٹ* بننے کا بھی اعزاز اپنے نام کیا –
والد محترم نے جہاں بھی اور جس ادارہ میں بھی تعلیم حاصل کی ، اپنی طبعی شرافت ، بلا کی ذہانت ، خوش خلقی ، حد درجہ انکساری ، جاں کاہی وکوہ کنی ، عرق ریزی و جانفشانی اور علم کی لازوال محبت سے سرشاری کی وجہ سے اساتذہ ورفقاء دونوں کے منظورِ نظر رہے –
والد محترم نے تکمیلِ علومِ کے بعد چند ماہ مدارس میں تدریسی خدمات انجام دی ، نیز چند سالوں تک کاشت کاری کا بھی پیشہ اپنایا، مگر قدرت نے اس باصلاحیت اور باکمال شخص کی علمی وادبی استعداد کو بروئے کار لانے اور اس کے افادہ کو عام کرنے کے لیے اس کے حق میں کچھ اور ہی فیصلہ کررکھا تھا ، چنانچہ *جولائی/ 1994ء* میں ہائی اسکول میں بحیثیت سرکاری ٹیچر آپ کی بحالی ہوگئی ، وقفہ وقفہ سے ایک اسکول سے دوسرے اسکول میں تبادلہ ہوتا رہا ، تقریباً چار اسکولوں میں اپنی عمر عزیز کا بیش قیمت بڑا حصہ یعنی اکتیس سال پڑھانے کے بعد *31/ جولائی 2025ء* کو سرکاری قانون کے مطابق *2 + 10 ہائی اسکول ، مورسنڈ ، پوسا ، سمستی پور کے عہدۂ پرسنل* سے ریٹائر ہوئے –
پابندئ اوقات ، فرائض سمجھ کر درس وتدریس اور اسکول کی دیگر ذمہ داریوں کی بحسن وخوبی انجام دہی ، بحث وتکرار سے اجتناب ، کم گوئی ، چاق وچوبندی ، صبر و تحمل اورشیرینئ کلام کی وجہ سے طلبہ و اساتذہ دونوں والد محترم سے فرحاں وشاداں رہے اور ابتداء ملازمت سے سبکدوشی تک انہیں عظمت واحترام کی نظروں سے دیکھا گیا ، راقم کو بھی ان کے کئی شاگردوں کے ساتھ مہنیہ بھر رہنے کا موقع ملا ، لیکن کسی نے بھی ان کی برائی نہ کی ؛ بلکہ سب مداح نظر آئے ، آپ کے تلامذہ میں سے بعض ڈی ایم ، ایس ڈی ایم ، پروفیسر ، ڈاکٹر اور انجینئر وغیرہ بن کر عزت و شہرت کی بلندیوں تک پہنچے اور بعض ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہیں – خدا انہیں بھی کامیابی سے ہمکنار کرے – آمین – یہ سب آپ کی طرف سے بروقت طلبہ کی صحیح راہنمائی کا نتیجہ ہے اور آج بھی وہ طلبہ جہاں بھی ملتے ہیں آپ کی مدح سرائی میں ڈوب جاتے ہیں –
یوں تو آپ اسکول کے ٹیچر تھے ، اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں شریعت بیزاری کا جو رجحان سر چڑھ کر بول رہاہے ، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ، نہ تو مسلم طلبہ کو شریعت وسنت سے کوئی مطلب ہوتاہے اور نہ ہی مسلم اساتذہ کو ، مسلم اساتذہ کلاس میں آکر صرف متعلقہ مضمون پڑھاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اور ادھر طلبہ بھی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے رنگین اور شریعت بیزار ماحول میں نہ صرف ارکانِ اسلام کی ادائیگی سے دور ، بلکہ بعض بعض طلبہ مذہب بیزار اور لامذہب تک بن گیے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ، ایسے میں اگر کوئی استاد تدریس کے ساتھ طلبہ کو شریعت وسنت کی پابندی کے تعلق سے نصیحت کرے تو یقینا یہ قابلِ تعریف عمل ہوگا – میرے والد محترم کے ایک شاگرد نے مجھ سے کہا کہ : “آپ کے ابو کلاس میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ ہم لوگوں کو نماز وروزہ اور دیگر عبادات کی ادائیگی کی تلقین کرتے رہتے ہیں ، اس کے فرائض وواجبات اور سنن و مستحبات کے بارے میں بتاتے ہیں” – یقیناً یہ بات دوسرے مسلم اساتذہ کے لیے قابل تقلید ہے –
میرے والد محترم کا جو معاملہ اور حسن سلوک اپنے طلبہ اور احباب کے ساتھ اوپر مذکور ہوا وہی معاملہ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ بھی کرتے ہیں ، راقم کو یاد نہیں ہے کہ والد محترم نے اسے کبھی بھولے سے بھی ایک بھی تھپڑ رسید کیا ہو ، ہاں مختلف موقعوں پر ڈانٹ ڈپٹ اور زجر و توبیخ سے کام لیاہے اور تربیت اولاد کے ضمن میں یہ ان کی ذمہ داری تھی بھی اور ابھی بھی ہے ، لیکن نہ تو کبھی مارا، پیٹا اور نہ ہی گالم گلوج سے کام لیا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ میرے سب بھائی بہن والد ماجد سے اس قدر خوش رہتے ہیں کہ ان کی ذرا سی تکلیف سے سب بے چین ومضطرب ہوجاتے ہیں ، اور والد کے تعلق سے جب بھی ہم لوگوں کی آپس میں ایک دوسرے سے گفتگو ہوتی ہے تو ہم یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اللہ پاک سب کو ایسے شفیق پدر کا سایۂ عاطفت عطا کرے اور والد ماجد بھی ہم لوگوں سے اس قدر محبت کرتے ہیں اور ہم پر اس قدر بھروسہ کرتے ہیں کہ اگر کوئی ہمارے تعلق سے شکایت بھی کرتاہے تو اس پر یقین کرنا تو درکنار اس کی شکایت پر نہ تو توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی اسے توجہ کے قابل سمجھتے ہیں – عام طورپر سرکاری ملازمین اور خاص طور پر بہار کے سرکاری ملازمین کو بعض دفعہ ماہانہ وقت پر نہیں ملتاہے ، لیکن اس صورت میں بھی انہوں نے ہم پڑھنے لکھنے والے بھائیوں اور بہنوں کو ماہانہ خرچ دینے میں تاخیر کرتے ہیں اور نا ہی ماہانہ نہ ملنے کی شکایت ، بلکہ وہ کسی نہ کسی سے قرض لے کر ہمیں وقت پر ماہانہ خرچ بھیج دیتے ہیں ؛ جس کی وجہ ہمیں کبھی بھی مالی مشکلات کا نہ تو سامنا کرنا پڑتاہے اور نہ ہی اس کی وجہ سے پڑھائی میں کوئی خلل واقع ہوتاہے، والد محترم کا اپنے بچوں کے تئیں ایک قابلِ تقلید عمل یہ بھی ہے کہ وہ کسی بھی بیٹا یا بیٹی کو کوئی کورس کرنے پر مجبور نہیں کرتے ہیں ، بلکہ وہ ہر ایک کورس کے نفع ونقصان کو ہمارے سامنے کھول کر بیان کردیتے ہیں ، جس کی وجہ سے ہرکورس کے فوائد ونقصانات کی واقفیت کے ساتھ ہم لوگوں کے لیے اپنی دلچسپی کا کورس منتخب کرنا آسان ہوجاتاہے اور پھر جب کسی خاص کورس کا ہمارا مزاج بن جاتا ہے اور اس کی تیاری میں ہم جٹ جاتے ہیں تو پھر وہ اس کورس کے قابلِ تقلید اور مثالی لوگوں کی کہانی وقفہ وقفہ سے سنا کر ہماری حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ حوصلہ شکنی یا اس کورس میں صرف ہونے والے اخراجات سے ہاتھ کھینچنے کا عمل وہ جانتے ہی نہیں ہیں اور ہمارے بھائیوں اور بہنوں کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے –
والد ماجد جس طرح خود دینی و دنیوی دونوں طرح کے علوم وفنون سے مزین وآراستہ ہیں ، اسی طرح انہوں نے اپنے بچوں کو بھی دینی و دنیوی علوم کا حسین امتزاج بنانے کی بھر پور کوشش کی ہے اور کر رہے ہیں اور اس میں اب تک وہ کامیاب بھی نظر آتے ہیں اور آگے بھی انشاءاللہ کامیاب رہیں گے ، ہمارے تیرہ بھائیوں اور بہنوں میں سے الحمدللہ دو بہنیں حافظہ اور عالمہ ہیں ، دوبھائی بھی حافظ قرآن ہیں ، جن میں سے ایک بھائی یعنی راقم حافظ ہونے کے ساتھ عالم وفاضل ، بی اے ، ایم اے بھی ہے ، اور فی الوقت پی ایچ ڈی کررہاہے اور ایک بہن صرف عالمہ ہے اور دوسرا حافظ بھائی فی الوقت دسویں کلاس میں ہے ، ایک بھائی ڈاکٹر ، ایک انجینئر ، اور دو بھائی نویں کلاس میں ہیں ، ایک بہن بی اے ، ایک ایم اے ، ایک بی ایس سی + بی ایچ ایم ایس اور سب سے چھوٹی بہن پانچویں کلاس میں ہے اور اس طرح الحمدللہ کچھ تو کامیاب ہوگئے اور کچھ کامیابی کی منزل کی طرف رواں دواں ہیں ، دعا ہے کہ جو کامیاب ہوگیے اللہ پاک انہیں اور بلندیوں تک پہنچائے اور جو کامیابی کی راہ پر گامزن ہیں ، انہیں باری تعالیٰ مکمل طورپر کامیابی عطا کرے ، آمین
والد ماجد کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ہروہ احسان جو وہ دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں ، چاہے دوسرا بھائی ہو یا غیر ، اسے بھول جاتے ہیں اور ہر وہ احسان جو ان پر کیا جاتاہے ، اسے یاد رکھتے ہیں ، اور جب تک کسی صورت میں اس احسان کا بدلہ نہ ادا کردیں ، اس وقت تک اپنے کو اس کے بوجھ تلے دبے محسوس کرتے ہیں –
والد محترم کم گو ہیں اور اتنا کم گو کہ جب آپ کئی بات کہیں گے تب جاکر وہ کوئی ایک بات بولیں گے – اسی طرح وہ اپنے سے بڑے لوگوں سے ملنے جلنے سے بھی کتراتے ہیں ، چاہے وہ علم وفضل کے اعتبار سے بڑا ہو یا مال ودولت کے اعتبار سے ، مثلاً مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب نائب ناظم امارت شرعیہ آپ کے دوستوں میں سے ہیں ، لیکن کبھی بھی بغیر کسی اشد ضرورت کے ان سے نہیں ملتے ہیں ، اسی طرح امتیاز احمد سابق چیئرمین بی پی ایس بھی آپ کے دوستوں میں سے ہی ہیں ، لیکن ان سے بھی ملنا ملانا نہیں ہوتاہے –
والد ماجد جہاں انتہائی شریف اور بے حد متواضع ہیں وہیں باغیور اور خوددار بھی ، جب بھی غیرت و خودداری کی بات آتی ہے تو آپ کا پیمانۂ صبر لبریز ہوجاتاہے اور غصہ سے چہرہ سرخ ہوجاتاہے ، بلکہ بعض بعض دفعہ تو آپا سے ہی باہر آجاتے ہیں ، آپ کا مزاج قدامت پسندی کی طرف مائل ہے اور بہت حد تک شریعت وسنت کے پابند بھی ہیں ، جس کی وجہ سے مشرقی تہذیب وثقافت کے دلدادہ اور مغربی تہذیب سے بے حد نفرت کرتے ہیں ، اپنی اولاد کی شادی بیاہ میں بھی دولت وشہرت کے بجائے خاندانی شریف لوگ تلاش کرتے ہیں ، دھوکہ دہی ، فریب کاری اور اپنے تو اپنے غیروں کی بھی ضرر رسانی اور دل آزاری سے ناآشنا ہیں – مزاج میں سادگی ، قول و قرار اور عہد وپیمان میں پختگی ، قلب میں نرمی و صفائی ، رشتہ داروں اور غیروں کی ہمدردی و غمخواری ، طبیعت میں بھولاپن ، اطمینان اور بے پناہ صبر وتحمل جیسے عظیم اوصاف پائے جاتے ہیں ، جن لوگوں کو بھی آپ کے ساتھ رہنے یا معاملہ کرنے کا اتفاق ہواہے ، وہ مذکورہ بالا باتوں کے مبنی بر حق ہونے کی ضرور گواہی دیں گے اور اگر آپ کو پھر بھی یقین نہ آئے تو چند ماہ ان کے ساتھ رہ کر یا ان سے معاملہ کرکے دیکھ لیجیے ، یقیناً آپ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ انسانوں کے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کے غول میں بھی بمشکل ایسا کوئی ایک انسان دیکھنے کو ملتاہے –
باقی رہی بات کہ خامیوں یا کمزوریوں کی تو اگر انتہائی تنقیدی نظر سے دیکھا جائے تو بشری تقاضہ کے مطابق چند چھوٹی چھوٹی فروگزاشتیں بھی نظر آسکتی ہیں ، جس سے سوائے انبیاء ورسل کے کوئی مبرا نہیں ہے ، ورنہ تو عمومی اعتبار سے آپ خوبیوں اور کمالات کا مجموعہ ہیں ، دوست واحباب اور رشتہ دار سے لے کر گاؤں و علاقہ کے لوگ بھی اس کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں –
مادہ پرستی کے اس موجودہ دور میں جہاں اخلاق اور ہمدردی و غمخواری جیسے الفاظ صرف باقی رہ گیے ہیں اور ان کا مصداق چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی بمشکل اکا دکا ملتاہے ، جبکہ دوسری طرف مفاد پرستی ، خود غرضی ، فریب کاری اور دولت وشہرت کے حصول کے لیے ہرطرح کے اخلاقی اور انسانی اصولوں کی پامالی کا رجحان عام ہے اور بستی و شہر ہر دوجگہ ایسے ہی لوگوں سے بھری پڑی ہے ، ایسے میں والد محترم جیسے لوگوں کے وجود کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے تاکہ انسانی تحفظ و اقدار کے بقاء کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی اس کا احساس کسی نہ کسی شکل میں ہوتا رہے ، لہذا تمام قارئین دل سے دعاکریں کہ اللہ پاک میرے والد ماجد کو صحت وعافیت کے ساتھ خوب لمبی عمر عطاکرے –
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے، انسان نکلتے ہیں –