برسات کی ایک بارش زدہ شام جب وہ اپنے دوست کو الوداع کہہ کر گاؤں کے ایک بوڑھے آدمی کے ساتھ بارش میں بھیگتا ہوا شہر جانے والی مرکزی شاہراہ کی جانب گامزن تھا تو اس نے بوڑھے سے پوچھا، “چاچا، یہ گاؤں کے ایک کونے میں لگے پرانے برگد پر ہمہ وقت بانسری، رنگین دوپٹہ اور کچھ رنگ برنگی چوڑیاں کیوں لٹکی رہتی ہیں؟”
اس بوڑھے نے پراسرار نظروں سے اسے دیکھا اور کہنے لگا، پتر لگتا ہے نئے آئے ہو، ورنہ یہ بات تو یہاں کا بچہ بچہ جانتا ہے- یہ کہہ کر اس بوڑھا نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کچھ یوں بتایا-)
یہ میرے لڑکپن کے دن تھے جب مجھے میرے دادا نے بتایا تھا کہ اس برگد کے اردگرد ایک اونچا ٹیلہ ہوا کرتا تھا، جہاں بیٹھ کر گاؤں کے کچے گھر، کھیتوں میں ہل چلاتے دہقان اور درختوں سے جھولتے شرارتی بچے دکھائی دیتے تھے- گاؤں کے اکلوتے اور قدیم کنویں سے پانی بھرنے والی کئی دوشیزاؤں کی ناک میں لشکارا مارتے کوکے کی چمک دن میں اس ٹیلے پر بیٹھنے والے کسی بھی شخص کو واضح دکھائی دے سکتی تھی- یہ ٹیلہ نہیں تھا، یہ تو جیسے کسی سنیما کی آخری سیٹ تھی، جہاں پر بیٹھ کر گاؤں کا ہر منظر سکرین کے روشن پردے کی مانند مکمل دکھائی دیا کرتا تھا- اسی ٹیلے پر چاندنی راتوں میں، خزاں کی شاموں میں، بہار کی صبحوں میں اور اداسی کے لمحوں میں کوئی بانسری کی ایسی پر سوز دھن چھیڑتا کہ بیلوں کو ہانکتا دہقان، ڈھور ڈنگروں کے لیے چارہ کاٹتا کسان، بھیڑوں کو لے چلتا چرواہا، گھڑوں میں پانی بھرنے والی مٹیاروں سمیت گاؤں کی ہر شے مسحور ہو جاتی اور انھیں اپنے اندر ایک عجیب اور پراسرار توانائی کا احساس ہوتا تھا- مگر کوئی بھی اس دھن چھیڑنے والے کو کبھی نہ دیکھ پایا تھا-
یہ ٹیلہ کب سے یہاں موجود تھا، کوئی نہیں جانتا- کچھ لوگ بتاتے تھے کہ یہ ٹیلہ پرانے وقتوں میں یہاں سے گزرنے والے مسافروں، درویشوں اور فقیروں کی آرام گاہ ہوا کرتا تھا- وہ لوگ یہاں آن رکتے اور سر شام چراغ جلاتے تو گاؤں والوں کو علم ہو جاتا، پھر ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق انھیں خاص مہمان سمجھ کر دل و جاں سے ان کی خدمت کیا کرتا تھا- بوڑھے یہ بھی بتاتے تھے کہ یہ اسی مہمان نوازی کا ہی نتیجہ تھا کہ گاؤں میں آج تک کبھی خشک سالی پیدا نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی گاؤں میں کوئی چوری اور بدامنی کا واقعہ ہوا تھا- چونکہ اب گاؤں سے ذرا پرے ایک اچھی سڑک بن چکی تھی اور وہاں ایک سرائے بھی قائم ہو چکی تھی، اس لیے اب یہاں اس ٹیلے پر آن رکنے والے مسافر تقریباً ناپید ہو چکے تھے- اب تو بس وہی انجان اور ان دیکھا شخص یہاں آتا تھا، جو دیر تک بانسری کی دھنیں چھیڑتا اور پھر چپ چاپ اندھیرے میں غائب ہو جاتا تھا- حیرت کی بات یہ تھی کہ گاؤں کے سب لوگ بانسری کی دھن کو تو پہچانتے تھے مگر اس بانسری بجانے والے سے کبھی نہ ملے تھے- گاؤں میں یہ بات پھیل چکی تھی کہ یہ بانسری آسیبی ہے اور ٹیلے پر انسان نہیں بلکہ کوئی غیبی مخلوق اترتی ہے- اکثر لوگ اب ٹیلے پر جانے سے کتراتے تھے- گاؤں کے بچے اور عورتیں ٹیلے کے قریب سے بھی گزرنے سے گریز کیا کرتی تھیں-
ایک روز خوب بارش برسی اور گاؤں میں جل تھل ہو گیا- ایسی بارش پچھلی کئی دہائیوں میں نہ برسی تھی- ایک بوڑھے نے کہا کہ ایسی بارش تب برستی ہے جب دو محبت کرنے والوں کے بیچ زمانہ روڑے اٹکا کر انھیں ایک دوسرے سے جدا کر دیتا ہے- پاس بیٹھا ایک اور بوڑھا حقے کا گہرا کش لگا کر بولا، کیا تم سٹھیا گئے ہو؟ ارے یہ موسم ہی بارشوں کا ہے تو کبھی کم اور کبھی زیادہ، بارش تو برسنی ہی ہے- یہ سن کر وہاں بیٹھے باقی بوڑھے مسکرانے لگے- شاید وہ جانتے تھے کہ ایسی زوردار بارش وصل کے موسم میں جدائی اور ہجر کی تکلیف میں برسا کرتی ہے-
بارش کے بہتے پانی میں بچے مختلف ڈبوں اور کاغذ سے کشتیاں بنا کر ان سے کھیلنے لگے- چند بڑی بوڑھیاں اپنی جوانی کے دنوں کو یاد کرنے لگیں جب ان کی ڈولیاں گاؤں کے ان ہی کچے گھروں میں اتری تھیں، تب ساون کا موسم تھا اور خوب بارشیں برسی تھیں- گاؤں کی دوشیزائیں کبھی بارش کو دیکھتیں، کبھی ایک دوسرے کے چہروں کی جانب دیکھ کر مسکرانے لگتیں- ایک دوشیزہ سے برداشت نہ ہو پایا تو وہ بڑوں سے آنکھ بچا کر کھلے آسمان تلے بارش کی بوندوں میں بھیگنے لگی- جوانی کا جوش بارش کی بوندوں میں مزید بھڑکتا ہے- اس کے دیکھا دیکھی کچھ اور دوشیزائیں بھی کھلے آسمان تلے بارش میں بھیگنے چلی آئیں- اچانک بادل زور سے گرجا اور بجلی کڑکی تو کچھ بچے اور وہ دوشیزائیں جو اب تک کھلے آسمان تلے مکمل بھیگ چکی تھیں، گھبرا کر چھپروں تلے آن کھڑے ہوئے- بارش برستے ہوئے کئی گھنٹے گزر چکے تھے اور اب شام ہو رہی تھی، لیکن بارش کے تھمنے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آ رہا تھا-
سورج غروب ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا جب اچانک ٹیلے سے بانسری کی ایک دلسوز مگر نئی دھن ابھری- پہلے تو گاؤں والے خوش ہوئے اور بارش کے لطف اور حسن کو دوبالا محسوس کرنے لگے، مگر اچانک ایک بوڑھا بولا، ایسا کون سر پھرا ہو سکتا ہے جو اس زوردار بارش میں بھی بانسری بجانے اس ٹیلے پر آن پہنچا ہے- میں نے تو اپنی پوری زندگی میں ایسا عاشق یا مجنوں نہیں دیکھا- مجھے یقین ہے یہ آسیبی ساز ہے جو گاؤں والوں کو مسحور کر کے انھیں گمراہ کرنے پر تلا ہوا ہے- وہ سب ایک دوسرے کی جانب خاموشی سے تکتے رہے اور ساتھ ساتھ بانسری کی اس نئی دھن پر سر بھی دھنتے رہے-
اچانک بادل اس زور سے گرجا کہ ماؤں نے گھبرا کر بچوں کو تھام لیا اور چند دوشیزاؤں نے سہم کر بے ساختہ چیخ مار دی- اس زور دار گرج سے ایک دفعہ تو بوڑھے بھی خوف زدہ ہو گئے- بادل ایک بار پھر گرجا اور بجلی کڑکنے کی خوف ناک آواز آئی- یوں محسوس ہوتا تھا جیسے گاؤں کے کسی کھیت یا ٹیلے پر بجلی گری ہو- فضا میں گہرا سکوت چھا گیا اور ایک دم بارش بھی تھم گئی- رات کا اندھیرا گہرا ہو چکا تھا اور ٹیلے پر بانسری کی آواز اب خاموش ہو چکی تھی- لوگوں کا خیال تھا کہ آسمانی بجلی ٹیلے پر موجود اس آسیبی دھن کو مٹا گئی ہے- مگر اندھیرے اور بارش کے پانی کی وجہ سے کوئی بھی ٹیلے تک جانے کی ہمت نہ کر سکا-
اگلی صبح سورج طلوع ہوا تو گاؤں کے چند لوگ مل کر اس ٹیلے پر جا پہنچے- رات بھر بارش برسنے کی وجہ سے جگہ جگہ گڑھے پڑ چکے تھے- ٹیلے پر پہنچ کر ان لوگوں کی نظر ایک کونے میں پڑے رنگین دوپٹے، ایک بانسری اور چند ٹوٹی ہوئی چوڑیوں پر پڑی- ساتھ ہی گیلی کیچڑ زدہ زمین پر کچھ قدموں کے نشانات بھی دکھائی دیے جو کھوجی کے بقول بارش کی وجہ سے ناقابل شناخت تھے- کیا یہ عشق کا معاملہ تھا یا پھر یہ ٹیلہ آسیبی تھا؟ کیا برگد پر کسی غیبی مخلوق کا بسیرا تھا؟ لوگ اپنے اپنے اندازے لگانے میں مصروف تھے- انھیں جب کچھ نہ سوجھا تو انہوں نے وہاں موجود بانسری، رنگین دوپٹے اور کچھ چوڑیوں کے ٹکڑوں کو پراسرار یا غیبی نشانی سمجھ کر اٹھایا اور واپس گاؤں چل پڑے-
گاؤں کے کمہار کے گھر سے شور اٹھ رہا تھا- ایک بوڑھے نے وہاں کھڑی ایک عورت سے وجہ پوچھی تو معلوم ہوا شیدے کمہار کی لڑکی، جو دو سال پہلے قریبی گاؤں کے میلے سے واپسی پر بیمار ہوئی تھی اور اس بیماری میں وہ ہر وقت یا تو روتی رہتی تھی یا پھر بانسری کی آواز سننے پر خاموش ہو کر مسحور ہونے لگتی تھی؛ وہ شام سے غائب تھی حالانکہ شیدے کمہار نے اسے ایک بند کمرے میں رکھا ہوا تھا- عرصہ ہوا وہ ٹیلہ تو کب کا اپنا وجود کھو بیٹھا پر نہ جانے کیوں اس کی اندھی ماں پڑوسن کے ساتھ مل کر ہر جمعرات رنگین دوپٹہ، کچھ چوڑیاں اور ایک بانسری اس برگد پر باندھ آتی ہے۔