عزیزم!
تم نے اپنے خط میں شاعری کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ شاعری سے تم کو خاص شغف ہے- تم کہتے ہو کہ شاعری کو بطور فن لے کر چلنا تمہاری آرزو ہے- میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک خوبصورت آرزو ہے بشرط یہ کہ اس میں ردی تخیل کا پرچار نہ ہو- تمہیں یقیناً معلوم ہو گا کہ فن کی سات اقسام ہیں یعنی موسیقی، شاعری، سنگ تراشی،رقص، معماری، مصوری اور غالباََ خوشنویسی- اس ہر ایک میں اپنی خاص دلکشی موجود ہے جو انسان کو صدیوں سے مسحور کرتی چلی آئی ہے- لیکن میں تمہیں بتاؤں کہ ان میں موسیقی سب سے زیادہ محرک اور جذبات کو ابھارنے والا فن ہے- یہ وہ فن ہے جو روح کو مست کر دیا کرتا ہے- لیکن موسیقی میں موزوں کلام نہایت اہمیت کا حامل ہونے کے سبب شاعری اور موسیقی کا آپس میں گہرا گٹھ جوڑ ہے- اسی لیے انسانی زندگی میں شاعری کو ہمیشہ سے خاص مقبولیت حاصل رہی ہے- یقیناً یہ ایک عظیم پیراڈاکس ہے کہ فانی انسان، لافانی فن تخلیق کر سکتا ہے-
جب ہم موجودہ زمانے کی بات کرتے ہیں تو موجودہ نئے ادب تخلیق کرنے والے ( شاعر ہوں یا ادیب) ایسا مواد پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو عام قاری کو خیالات تخلیق کرنا نہیں سکھاتا بلکہ ہوائی قلعے بنواتا ہے- ایسا مواد سوچنے اور تنقیدی فکر پیدا کرنے کی بجائے پڑھنے والوں کو بس لفظوں میں گھماتا پھراتا ہے اور جو کہا جا رہا ہے اسے بغیر سوال کئے قبول کرنے پر آمادہ کرتا ہے- اسی کو ہم مقبول عام ادب کہتے ہیں- پہلے اس میں فقط ناول اور افسانوں کا ذکر ہوتا تھا مگر اب شاعری نے بھی یہاں ایک خاص مقام حاصل کر لیا ہے- یہ ایسے لوگوں کا طبقہ ہے جو نہ سوال کرنے کا ڈھنگ جانتا ہے، نہ تنقیدی فکر رکھتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کے کلاسیک کو پڑھنے اور سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے- ان کے نزدیک فقط جملوں کی ایک خاص ترتیب اور جذبات کے چند خاص پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہی ادب ہے، اور یہی فن ہے- ٹالسٹائی نے کہا تھا، “عمدہ اور ردی فن کا واحد معیار شخصی لذت بن گیا ہے ۔ خیر وہ ہے جو نفوس میں لذت بھڑ کاۓ اور وہی جمیل بھی ہے-” مقبول عام ادب میں الف لیلہ و لیلہ ہو، کلیلہ و دمنہ ہو، گل گامش ہو، توبۃالنصوح، داستان امیر حمزہ وغیرہ ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے- ان سب میں مخفی موتیوں کو ایک سنجیدہ اور ادبی تشنگی رکھنے والا قاری بآسانی چن سکتا ہے- مگر بقول ایک صاحب نظر کے، آج کل کے ادب میں “رومانیت نے اپنے ہیرو کو ایک عاشق یا صوفی کا روپ دے دیا ہے- واقعاتی ادب کا ہیرو اکثر شہوانی اور مادی بن جاتا ہے- اور معاصر ادب ضیاع میں ہم ہیرو کو اس روپ میں دیکھتے ہیں کہ وہ فقیر، کمزور اور کچلا ہوا انسان ہے یا وہ اجمالی طور پر ایک ایسا انسان ہے جس کا انجام تباہی و بربادی قرار پا چکا ہے-
تم سوچ رہے ہو گے کہ اس ساری گفتگو میں شاعری کا ذکر کہاں ہے؟ میں تمہیں بتاؤں کہ ایسا ہی کچھ فی زمانہ مقبول عام شاعری میں بھی ڈھونڈا جا سکتا ہے- اگرچہ شعراء کے ہاتھ میں قوم کی باگ ہوتی ہے، وہ قوم کے نظریات اور مزاج کو کسی جانب بھی موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں- کسی جنگ میں کہے جانے والے چند مصرعے جو اثر پیدا کر سکتے ہیں وہ کسی جنگی باجے کے بس کی بات نہیں ہے- کسی ذہن کے بدلنے یا اسے جدید بنانے میں شاعری کا جو مؤثر کردار ہے وہ شاید کسی دوسری چیز میں موجود نہیں ہے- لیکن فقط وزن اور بعض اوقات وزن کو بھی نظر انداز کر کے دلکش لفظوں کے مجموعے کو شاعری کا نام دے کر لوگ خود کو شاعر کہنے لگتے ہیں اور پھر انہیں ایک مجمع سنتا ہے اور واہ واہ بھی کرتا ہے- یقین مانو ایسے مجمع میں اکثریت ان کی ہوتی ہے جنہیں غالب، فیض، داغ، اقبال وغیرہ سمجھ ہی نہیں آتے یا شاید انہوں نے کبھی ان کو پڑھا ہی نہیں ہوتا- ایسا مجمع رکشوں اور ریڑھیوں کے پیچھے لکھے عامیانہ و بازاری اشعار کو فن شاعری سمجھ بیٹھتا ہے- اقبال نے کہا تھا، “شاعری محض محاورات اور اظہار بیان کی صحت سے بڑھ کر کچھ اور بھی ہے-” یعنی شاعری میں محض الفاظ و بیاں اہم نہیں بلکہ یہ کیفیات کا ایسا بحربیکراں ہے جس میں انسان ڈوبتا چلا جائے اور نئی دنیاؤں سے آشنائی حاصل کر سکے- وہ ایک الگ دور تھا جب عوامی شاعری، میلوں میں، بازاروں میں لوگوں کے نظریات پر مثبت اثر ڈالا کرتی تھی- اب اکثر شاعر نہ تو معاشرتی اصلاح کر پاتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا شاعرانہ رنگ ان پر غالب آتا ہے- المیہ یہ ہے کہ ایسے مواد کو عوامی کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے-
کہیں ڈیرک والکوٹ کے بارے پڑھا تھا، اس نے لکھا، ” ہمارے زمانے کی شاعری قاری کو مسرت نہیں دیتی، ذمہ داری دیتی ہے- شاعری کو اور شاعری کے ذریعے اپنی دنیا کو سمجھنے( اور بدلنے) کی ذمہ داری، اور المیہ یہ ہے کہ یہ ذمہ داری کم ہی قارئین قبول کرتے ہیں- عام قارئین، اب بھی شاعری سے مسرت و تفریح کا مطالبہ کرتے ہیں اور جس لمحے شاعری ان سے اپنے سمجھے جانے کا مطالبہ کرتی ہے وہ اس لمحے سے بچ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں-” تمہارے لیے یہ الفاظ یقیناً اہمیت کے حامل ہیں- ان لفظوں کو سمجھو اور پھر مقبول عام شعراء کے کلام پر نظر ثانی کرو- مجھے ناصر عباس نیر صاحب کی بات ذہن میں آنے لگی ہے، وہ کہتے ہیں کہ اب اس شاعری کو پسند کیا جانے لگا ہے جس میں تفریح کا عنصر ہو، چاہے وہ مزاح کی شکل میں ہو یا اس میں عشق اور سیاست کے لیے زبان کو ذومعنی انداز میں استعمال کیا گیا ہو- نہ مزاح برا ہے نہ عشق و سیاست کے موضوع میں کوئی قباحت- سوال یہ ہے کہ ان سب چیزوں کو کس طور پیش کیا جا رہا ہے؟ یہ محض تفریح کی خاطر یا فنی معیار کے ساتھ کسی انکشاف کے لیے؟ وہ شاعری جو انسانی روح سے مخاطب ہوتی ہے یا انسان کو احساس کی ایک ارفع صورت تک لے جاتی ہے، یا انسانی ہستی کی پیچدگیوں اور تضادات کو انتہائی مؤثر جمالیاتی پیرائے میں سامنے لاتی ہے وہ بس چند لوگوں تک محدود ہو گئی ہے- تم چونکہ ایک شاعر ہو تو یقیناً یہ سب باتیں تمہیں خوب سمجھ آ رہی ہوں گی- تم شاعری ضرور کرو، عوامی شاعر بے شک بنو مگر کلاسیک کو نظر انداز کبھی نہ کرو- تمہاری شاعری میں بے شک معشوق موجود ہو مگر وہ عفت و عصمت کا حرم نشین ہو، وہاں تک رسائی مشکل ہو، اگر وہاں کا رخ کیا جائے تو تلواروں کا سامنا ہو- محبوبہ کے ان تلوار بردار محافظوں کو عرب رقیب کہتے تھے- سو شاعری کرو، عاشقانہ بھی کرو مگر ان میں جذبات سچے،شریفانہ اور مناسب ہوں- تمہاری شاعری میں محبوب بازاری نہ ہو، ہر ایرے غیرے کا سحر اس پہ طاری نہ ہو جبکہ عاشق تمہاری شاعری کا ذلیل نہ ہو، محبوبہ کی گلی کا کتا نہ ہو، اپنے وقار کے خلاف حرکات نہ کرتا ہو- ایسا عاشق ہو جو کہتا تھا،
فلا تحسبي أني تخشعت بعدكم … لشيءٍ ولا أني من الموت أفرق
” یہ خیال نہ کرنا کہ تمہارے بعد میں ذلیل ہوگیا اور نہ یہ کہ پاؤں کو زنجیر میں بند پاکر اپنے وقار کے خلاف حرکت کرتا ہوں۔” یاد رکھنا بڑی شاعری اور بڑے آدمی کی زندگی پیراڈاکسوں سے بھری ہوتی ہے-
شاعری اک عطا ہے اور عطا عموماً آسمانی ہوتی ہے- سو تم اس عطا کو چاہے رومی، سعدی، عطار، خسرو، جہانگیر سمنانی، قلی قطب شاہ، ولی دکنی، مظہر جان جاناں، سراج اورنگ آبادی، سودا،آتش،ذوق، ناسخ، بہادر شاہ ظفر، بیدل، میر، غالب، داغ، حالی، جگر، جوش، فراق، فیض، اقبال، میرا جی، اکبر، مجید امجد، ناصر کاظمی، ابن انشاء، یا پھر کسی بھی اور شاعر کے رنگ میں رنگو، مگر یہ یاد رہے کہ پڑھنے والے کو ایک نئی راہ ملے، اک نیا مقصد اور نظریہ ملے جو ان کی تعمیری اور مثبت شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کر پائے- وگرنہ تمہارا ہر شعر جذبات کو عریاں کرنے کے علاوہ اور کچھ نہ کر پائے گا جس میں نہ معنویت ہو گی اور نہ ہی کوئی فکر۔
تمہارا اپنا۔۔۔
عبداللہ