داستان ایک مردِ خرد مند وجنوں پسند کی

حصہ اول

:داستان گو اول

 

نئے طرز کی اک کہانی سنو

نئی ایک سحرالبیانی سنو

حقیقت بیانی توسنتے رہے

ذرا اب بیاں داستانی سنو

سنوتیرگی میں اجالے کاراگ

سنو روشنی کے فسانے کاراگ

سنوجس سے ظلمات روشن ہوئے

زمینِ ضیا کے جیالے کاراگ

:داستان گودوئم

 یہ قصہ کسی خطۂ خیالستان یاملک ایران وطوران کانہیں اورنہ ہی کسی شہرِشبستان یاوادی پرستان کاہے بلکہ اس جہانِ بے امان، بے سروسامان اور پراز ہیجان کاہے جس کی ایک قوم اپنے شاندار، پروقار اور بااعتبار ماضی کے باوجود افلاس وادبار، فکروانتشار اور اضطراب واضطرار کی شکارتھی۔ جس کی شاخِ نمودِ ذات بے برگ وبار تھی، شیرازۂ ہستیِ حیات تارتار تھی۔ جس کے آشیانے، آستانے ، جلوت خانے، تعلیمی وتہذیبی سارے ٹھکانے، ہزیمت، فلاکت اور نحوست کے طوفان میں گھرتے جارہے تھے اور ایک ایک کرکے اصالت، شرافت اور نیابت کے ستونِ عظیم الشان گرتے جارہے تھے۔ جو اپنی بداعمالی، بدخصالی اور تصورِ کنہ سالی کی بدولت پائے مال، تنگ حال اور کنگال ہوتی جارہی تھی۔ جسمانی، روحانی اور ایمانی سبھی طرح کے مال ومنال کھوتی جارہی تھی۔ سرمایۂ صبروسکون اور متاعِ جمال و جلال سے ہاتھ دھوتی جارہی تھی۔

داستان گو اوّل:

 یہ اس تباہ حال، بدخصال اور آمادۂ زوال قوم کے ایک فردِ دردمند اورمردِ جنوں پسند کی داستان ہے جس کا سینہ ضربِ المِ ملّت سے فگارتھا۔ دل دردِ عزیزو اقارب سے بے قرار تھا۔ ذہن زیرِشورِ شرار تھا۔ اعصاب وحواس پر احساسِ خم خواری کاایسا جن سوار تھاکہ نہ صبرتھا نہ قرارتھا۔ یہ کیفیت اس لیے تھی کہ شعورکی آنکھیں کھلتے ہی اس کے سامنے ایک ایسا منظر لہرایاکہ دیدوں ایک زرد پیکر اُبھر آیا۔ پژمردگیوں سے پر یہ پیلا پیکر پتلیوں میں اس طرح پیوست ہواکہ اس کا دل لہوہان، دیدہ حیران اور ذہن پریشان ہوگیا۔ آنسوئوں نے وہ جوش ماراکہ دلِ درد مندکو دریابنادیا۔ جذبۂ ترحم میں گرداب اٹھادیا۔ جنونِ مداوائے درد کا جوش بڑھادیا، دریاامنڈا، چڑھا، بڑھا اوراپنے سینے کی طغیانی وموجوں کی روانی کے ساتھ اچھلتا، پھسلتا اور سنبھلتاہوا جانب صحرا نکل پڑا ؎

داستان گودوئم:

چاہ ایسی کہ رگِ سنگ سے چشمہ ابلے

کہرکی کوکھ کٹے، سرخ سویرا نکلے

وقت کوسینک لگے، برف کا تودہ پگھلے

جسم میں جان پڑے، خونِ تمنا اچھلے

 رنگ بھرجائے کسی طرح سے ویرانوں میں

جل اٹھے دیپ کوئی پھرسے سیہ خانوں میں

داستان گواوّل:

 اس مردِمہم پسند نے مانندِعصائے موسوی اپنی چھڑی ایسی گھمائی کہ دور پاس کے سبھی سامریوں کے طلسمی سانپ اس کے بس میں آگئے۔سارے عصائے فتنہ پرداز اس کے سامنے بل کھاگئے۔ باربار ڈسے جانے والے جسم وجان زہرِہلاہل سے نجات پاگئے۔ اس نے ہوش اور جوش کے وہ وہ کمالات دکھائے کہ دیدہ وروںکی آنکھوں میں حیرتیں لہرا اٹھیں۔ایسی حکمتیں کیں کہ حکومتیں تھرّا اٹھیں۔تدبّر کے ایسے تیر پھینکے کہ تقدیریں گھبرا ٹھیں۔

داستان گودوئم:

 دانائوں کاسا ہوش اور نادانوں جیساجوش رکھنے والایہ مردِجنوں خیز معدودے چند مردوں میںسے ایک تھاجو ایک طرف تو آتشِ نمرود میں بے خطر کودپڑتے ہیں اور دوسری جانب وادیِ گلگشت میں فرشِ گل پر بھی پھونگ پھونک کر قدم دھرتے ہیں۔ جو ڈوب جانے کی پرواہ کیے بغیر منجدھار میں اترجاتے ہیں ۔ جنونِ شوق میں حد سے گزر جاتے ہیں۔ حیرت انگیز کار ہائے نمایاں کرجاتے ہیں۔ جن کی آنکھیں دوسروں کی تباہی کے منظرسے گیلی ہوتی ہیں۔ پلکیں اداس اور پیلی ہوتی ہیں۔ رگیںدوسروں کے حصے کے زہر سے نیلی ہوتی ہیں۔

داستان گواوّل:

  اس میں حوصلہ اس لیے آیاکہ وہ یہ جانتاتھا کہ منظر کیسے بدلتاہے؟ زرد پیکر سبزرنگ میں کیسے ڈھلتاہے ؟ ببولوں پر پھل کیسے پھلتاہے ؟ بنجرمٹی سے نمی کیسے نکلتی ہے؟خشک ٹہنی پر کلی کیسے کھلتی ہے؟ پژمردہ پھولوں سے خوشبو کیسے ملتی ہے؟اسے معلوم تھا کہ صحرامیں پھول کھلانے کے لیے صحرا پیمائی کرنا پڑتاہے۔ مرحلۂ آبلہ پائی سے گزرناپڑتاہے۔ بادِ بہاری کے لیے ہوائے صرصرسے ٹکرانا اور بادِ سموم سے ٹکرلینا پڑتاہے۔ موجِ سراب میں سفینہ کھینا پڑتاہے۔ اس مرحلۂ دشوار میں سرمایۂ جان بھی دینا پڑتاہے اوروہ یہ سب اس لیے جان پایاکہ:

داسان گو دوئم:

قوم کا درد شب وروز ستاتاتھابہت

صبح سے شام تلک اس کو رلاتاتھا بہت

اس کے سینے میں کوئی شور اٹھاتاتھا بہت

زخم احساس پہ ہر آن لگاتاتھا بہت

دردکہتاتھا کہ ملّت کو سنبھالاجائے

قوم کو کرب کے نرغے سے نکالاجائے

داستان گو اوّل:

 اس کام کے لیے اس نے گھر چھوڑا۔در چھوڑا، لقمۂ تر چھوڑا۔ کوچہ کوچہ پھرا، در در بھٹکا، اِدھر اُدھر مارا مارا پھرتا ہوا صحرامیںپہنچا۔ دشت پیمائی اور آبلہ پائی کے درد وکرب سے گزرا۔ گرم بگولوںسے بھڑا۔ جھکڑوں سے لڑا، جگر توڑ مصیبتیں جھیلیں، جاں گسل صعوبتیں اٹھائیں۔ ذلت آمیز اذیتیں برداشت کیں۔ طنز کے تیرکھائے ۔ کفرکے فتوے کے داغ جھیلے۔دہریے کے الزام کے چرکے سہے۔ غیر تو غیر اپنوں کے پتھروں سے لہولہان ہوا۔ اپنا مذہب بھی درپۂ جان ہوا،مفتیانِ

دین کی جانب سے جاری قتل کا فرمان ہوا۔مگر وہ ڈرا نہیں، خوفِ مرگ کے آگے جھکانہیں ، کسی بھی موڑ پر رکانہیں۔ کسی بھی ضرب سے ٹوٹا نہیں۔

داستان گودوئم:

 جوکھم بھرے اس تنگ وتاریک پُرخطر سفر میں وہ کتنی بار گرا؟ جسم کا کون کون سا حصہ کٹا پھٹا؟ کہاں کہاں کاچمڑا چھلا؟ کتنا گہرازخم بنا؟ کب کب کتنا خون بہا؟ کیساکیسا درد اٹھا؟ ان سب کا کوئی حساب نہیں، کوئی کتاب نہیں، کوئی نصاب نہیں، مگریہ زخمِ جگر خراش بے حساب کیوں؟ یہ کارِ جاںکاہ اور یہ کرب و اضطراب کیوں؟ یہ صعوبت ِسفر اوریہ اذیت ناک عذاب کیوں؟

داستان گو اوّل:

 ظاہر ہے یہ سب اپنے لیے نہیں بلکہ اپنوں کے لیے تھا۔ اپنوں کی آنکھوں میں پلنے والے سپنوں کے لیے تھا۔ ان اپنوں کے لیے جنھوں نے اسے اپنا دشمن جانا، مطلبی گردانا، عدوئے دین، منکرِخدا اور خطرۂ ملت مانا۔

 یہ زخمِ جگر خراش، یہ کارِ جاں کاہ اوریہ اذیت ناک عذاب اس لیے کہ بینائی والی بصارتیں کسی ڈوبتے ہوئے کی بے دست و پائی نہیں سہ سکتیں۔ حساس سماعتیں کسی کی چیخ پرچپ نہیں رہ سکتیں۔ اس کی مجبوری یہ تھی کہ اس کا دل حسّاس تھا، اس کے پاس وصفِ حواس تھا، اس کے گوش ونظر کو دل دوز منظروں کا پاس تھا۔

 اسے یہ آگہی بھی تھی کہ قوم جس موذی اور مہلک مرض میں مبتلا ہے اس سے نجات دلانا کسی معمولی معالج کے بس کی بات نہیں ۔ ملت کے مقدر میں آئی یہ رات کوئی ایسی ویسی رات نہیں۔ قوم کے ذہن و دل پر کی گئی گھات کوئی ایسی ویسی گھات نہیں۔

داستان گودوئم:

اسے احساس تھا یہ کام کوئی کرنہیں کرسکتا

پرایا درد اپنے دل میں کوئی بھر نہیں سکتا

کوئی قصداً کسی تلوار پہ سردھرنہیں سکتا

غمِ ملّتمیں آسانی سے کوئی مر نہیں سکتا

کلیجہ چاہیے قربان ہونے کے لیے تن میں

جگردرکار ہے بے جان ہونے کے لیے تن میں

داستان گو اوّل:

 یقینا آپ جانناچاہیں گے کہ وہ جو راہِ حق میں گردن کٹانا جانتاتھا ، فلاحِ قوم میں خود کو لٹانا جانتا تھا، ملت کے لیے خون بہانا جانتاتھا، وہ کون ہے؟ کون ہے وہ مردِ آہن و سنگ، مردِ مقابلِ فرنگ،نمونۂ نیرنگ جس کے دم سے دیوار ہٹی، پوپھٹی، دھندچھٹی، ظلمت مٹی۔ اس کانام کیا ہے؟ اس کاکام کیاہے؟ اس کی اپنی ہستی کاانجام کیاہے؟

داستان گودوئم:

 توسنیے اور جانیے کہ وہ وہ ہے جس کانام، کام، رنگ وفام، مقام، انجام سب جداہے، اس کاسراپا سرسے پا تک ایک پیکرِ دل کشاہے۔ایک منظرِ بے بہا ہے۔ نام دنیاسے نرالاہے۔ سید میں سرکااجالاہے۔ اس میں مشرق ومغرب دونوں کا بول بالاہے:

داستان گواوّل:

ہماری ہی دنیا کا کردار ہے

مگر وہ انوکھا ہی اوتار ہے

بہت دانا، بینا و ہشیار ہے

کسی دیو کی طرح بیدار ہے

ہراک کام اس کا جہاں سے جدا

ہراک گام پر آنکھ حیرت زدہ

داستان گودوئم:

 ہمیں جیساہے وہ بھی مگر دوسراہے۔ اس کی داڑھی اور ٹوپی دونوں میں اک اداہے۔ ٹوپی، ٹوپیوںسے مختلف اور داڑھی، داڑھیوں سے جداہے۔ اوپرکواٹھی ہوئی لال لمبی ٹوپی شخصیت کی رفعت کو دکھا رہی ہے اور پھیلی ہوئی چوڑی داڑھی قلب ونظر کی وسعت کوبتارہی ہے۔ غیر معمولی قدوقامت اسے منفرد و ممتاز بنارہی ہے اور دائرے سے نکلی ہوئی جسامت پیکر ِخاکی میں چار چاند لگارہی ہے۔

داستان گواوّل:

 وہ شخص جو پیری میں بڑادکھائی دے رہاہے ، بچپن میں بھی چھوٹا نہیں تھا، وہ عہدِطفولیت میں بھی بڑاتھا۔ وہ جس ڈیل ڈول میں تولدہوا، وہ عام بچوں سے جداتھا۔ قدجسدِکو دک سے سواتھا۔ اسی لیے وہ منفرد لگا، حالت ِکودکی سے ہٹاہوا محسوس ہوااورجسے دیکھ کر اس کے ناناجان نے کہا: ’’یہ ہمارے گھرمیں جاٹ پیدا ہوا‘‘ جاٹ کا نام سنتے ہی نگاہ میں ایک ایسا ہیولا اُبھرتاہے جو مافوق الفطری سالگتاہے۔ لمبائی، چوڑائی اور موٹائی تینوں جہتوں سے مثل غزال قلانچیں بھرتاہے۔ آنکھوں کو حیرت زدہ اور عقل کو بھونچکاکرتاہے۔

داستان گودوئم

 اس جاٹ کو دک نے ایساقدنکالا، ایسا قامت دراز کیاکہ انسان تو انسان چشمِ فطرت کوبھی حیرت میں ڈال دیا۔ خواجہ فرید کی حویلی میں پیدا ہونے اور اس حویلی کے وسیع وعریض احاطے میں پروان چڑھنے والا یہ بچہ جسم سے ہی غیرمعمولی اور موٹاتگڑانہیں تھا بلکہ اپنی ذہانت وفتانت سے بھی تنومند وتواناتھا۔

داستان گودوئم:

 وہ بچہ جس گھر میں پیدا ہوا، وہ گھر نہیں گھرانا تھا۔کوئی کاشانہ نہیں بلکہ ایوانوں والا ایک دولت خانہ تھا جس میں علم و آگہی کا آستانہ تھا۔ جس میں درسگاہیں تھیں ،خانقاہیں تھیں۔ منزلِ دین و دنیا کی راہیں تھیں۔ ایساگھراناجس کی آن بان تھی، نرالی شان تھی۔ دوردورتک پہچان تھی، جو تعلیم یافتہ ہی نہیں، ددھیالی اور ننھالی دونوں جوانب سے خطاب یافتہ بھی تھا۔ دادا سید ہادی جوادالدولہ کے خطاب سے سرفراز تھے اورنانا خواجہ فرید دبیرالدولہ کے لقب ِفاخرہ کی بدولت ممیز وممتاز تھے۔ گھرانے کے دونوں سرے دربار شاہی سے ملتے تھے۔ جس کے باعث گھرانے کی دیواروں میں درباری درکھلتے تھے اور فضائوں میں مثلِ نکہت شاہانہ افکار گھلتے تھے۔ باغ شاہی کی سرسبزوشاداب کیاریوں سے خوشبودار ہوائیں ادھر بھی آتی تھیںاور دل ودماغ کو

تروتازہ کرجاتی تھیں۔ حویلی کی خود اپنی وسعتیں تھیں۔ وسعتیں ذہن کی طرفیں اور قلب کی گرہیں کھولتی تھیں۔ ذہن کے دریچوں کو کھلے پن کے رنگوں سے سجاتی تھیں۔ دماغ کو مہکاتی تھیں۔ آسمانوں پر اڑاتی تھیں۔ رفعتوں تک پہنچاتی تھیں۔ عظمتوں سے ملاتی تھیں۔

داستان گو اوّل:

 اس کی بالیدگیِ ذہن اور روئیدگیٔ نظرکا ایک سبب یہ بھی تھاکہ اسے امرا ء و رئوساکی صالح صحبتیں حاصل تھیں۔ اس کی سانسوں میں علماء فضلاکے عنبریں اذہان کی برکتیں شامل تھیں۔ اس کی عادتیں بارِ ذہانت کی حامل تھیں۔

داستان گودوئم:

 وسعتِ ذہن اور رفعتِ فہم کا سبب یہ بھی بناکہ اس مردِ جنون وخرد پسندکا بچپن ماں کے ہاتھوں پروان چڑھا۔ اس کے ذہن کاآہنگ ممتاکے ان تاروں کی ترنگ سے تیارہواجو محبت ، شفقت اور مروّت کے حامل تھے۔ جن میں اخوت اور آدمیت کے سُرشامل تھے۔ جو اپنے فن میں ماہر و کامل تھے۔ ایسے سرجونغمۂ سرمدی سکھادیتے ہیں۔ حق کے لیے سروں کودار پر چڑھادیتے ہیں۔ فرش کوعرش پر بٹھادیتے ہیں۔ ماں نے بچے کو شعوروادراک کا ایسا درس دیا کہ بچہ بچپن میں ہی بالغ النظر بن گیا۔مردِ مومن اور فوق البشر بن گیا،جو اپنے زمانے کا الیاس و خضر بن گیا۔جو بچہ ماں کے سایۂ عاطفت میں پلتاہے اور ممتاکی چھائوں میں پروان چڑھتاہے وہ جوان ہوکر غیر معمولی انداز سے بڑھتا ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ جو بچہ بھی ماں کی نگرانی ونگہبانی میں پلابڑھا اس کے سر پر کامیابی کا تاج سجا،وہ ہرمیدان میں کامران وفتح یاب ہوا۔ خواہ وہ یشوداماں کی گود میں پلنے والے لارڈ کرشنا ہوں یاماں مریم کے زیرِ نگرانی تربیت پانے والے حضرت عیسیٰ ہوں، خواہ بی بی ہاجرہ کی دیکھ بھال میں جوان ہونے والے حضرت اسماعیل ہوں۔خواہ وہ آمنہ بی بی کے سائے میں پلنے والے حضرت محمد مصطفیٰ ہوں۔ یہ سب اس لیے عظیم ہوئے کہ ان کے سروں پر ماں کا وہ آنچل تھا جس میں ایسے ایسے رنگ ہوتے ہیں کہ جو اپنے بچوں کے لیے ہمابن جاتے ہیں۔ اولاد کی کامرانیوں کے لیے دعابن جاتے ہیں۔ لاڈلوں کی پریشانیوں کے لیے دوابن جاتے ہیں۔

داستان گواوّل:قصہ مختصر یہ کہ ؎

ماں نے اک ننھی سی جاں میں سوزِ انساں رکھ دیا

چشمِ کودک میں بھی کوئی مہرِتاباں رکھ دیا

ایک مسیحائے زمانہ، ایک درماں رکھ دیا

چارہ سازی کابدن میں سازو ساماں رکھ دیا

دل گدازی ، نرام خوئی کا خزانہ رکھ دیا

جاٹ بچے میں بھی وصفِ شاعرانہ رکھ دیا

داستان گودوئم:

 پوپھٹی،دھند چھٹی، تاریکی ہٹی، سورج اُگا، افق روشنی سے بھرگیا، بچپن عہدشباب کی اور چلا، دائرۂ ادراک بڑھا، دیوارِ دانش پر رنگ چڑھا۔ وصف ِزیرکی منور ہوا۔بصیرت صاحبِ بال وپرہوئی۔ ذات جاذب ِنظر ہوئی۔ شخصیت معتبر ہوئی۔ ہستیِ سید اور پراثر ہوئی۔ وجودِ مسعود میں ایسی کشش پیدا ہوئی کہ اہلِ دانش کی ایک دنیا ٹوپی کے پھندنے میں بندھ گئی۔ ایک داڑھی کے سائے میں خرد مندوں کی خلقت سمٹ آئی۔ اہلِ نظر کی بھیڑ لگ گئی، جاذبیت نے وہ جادوگری دکھائی کہ علمائے دین ودنیا کے لبوں سے صدائے مرحبا اچھل آئی اور خامۂ حالی سے تویہ صدا بھی نکل آئی:

داستان گواوّل:

’’اس کی چتونوں میں غضب کاجادو بھراہے کہ جس کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھتاہے وہ آنکھیں بندکرکے اس کے ساتھ ہو لیتاہے ۔‘‘

داستان گودوئم:

 اس کا جادوئی کردار درجنوں نابغۂ روزگار ہستیوں کا اپنے پاس مجمع لگا دیتا ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اپنے آس پاس ہلِ علم کی بارات سجا دیتا ہے،دانشوروں کی ایک کہکشاں بچھا دیتا ہے۔

داستان گواوّل:

 عقل کی رہنمائی، دل کی بینائی، دانش و دانائی کی روشنی میں اہلِ دردکاکارواںجانبِ ملت بڑھا۔ بیمار قوم کا قریب سے معائینہ ہوا۔ذہنِ رسااسبابِ علالت کے ساتھ ساتھ تشخیصِ علاج تک پہنچا۔نبض کی سمت و رفتار کو پکڑا گیا۔دشمنِ جان کو جکڑا گیا۔اخلاق کی تہذیب کا پرچہ بنا۔ ایک طرف اِک اِک کرکے سبب مرض درج ہوا دوسری جانب مجرّب نسخہ لکھاگیا:

 ایک سبب مروّجہ ادب کو سمجھاگیا۔اسے جدید نقطۂ نظرسے پرکھاگیا۔ زیادہ ترحصہ مضر اور مخربِ اخلاق ثابت ہوا۔ہوا و ہوس کے تئیں غصے کی لہر اٹھی۔ زبان وبیان کے خلاف تحریک چلی۔ کڑی تنقید ہوئی۔ افادی ادب کی بنیادپڑی۔ شاعری کی نئی طرز وجود میںآئی۔ فکشن کی نئی راہ نکلی۔ اصلاحِ معاشرہ موضوعِ سخن بنی،المناک زندگی ادب کے سانچے میں ڈھلی۔ آزاد نے نئی نظم کہی۔ حالی نے مسدس لکھی۔ ڈپٹی نذیر احمدنے نئی افسانوی تحریر قلم بندکی۔ خودسرسید نے نئے انداز کی کہانی بنی۔

داستان گواوّل:

 نظر بلند ہوئی۔اظہارکونئی طرز ملی۔ افادی پیکر بنائے گئے ۔ ادبی نگار خانوں میںنئے مرقعے سجائے گئے۔اصلاحی مناظر دکھائے گئے۔ شعر تصورکو تصویر میں ڈھالنے لگا۔ فن فکرکوپالنے لگا۔ ادب کامیابی کی راہ نکالنے لگا۔

حیاتِ ملت سنبھلنے لگی۔ راہِ مستقیم پرچلنے لگی۔ قوم کی تقدیر بدلنے لگی۔ بیمارکی رات ڈھلنے لگی۔ حواس پر جمی برف پگھلنے لگی۔ زندگی پھولنے اور پھلنے لگی۔

داستان گودوئم:

 دوسرا سبب قدامت پرستی کو ماناگیا۔ آثارکہنگی کوپہچاناگیا۔دقیانوسیت کے نقصانات کو گرداناگیا۔اثرکو زائل کرنے کی تدبیریں اپنائی گئیں۔ اسکیمیں بنائی گئیں۔ تحریکیںچلائی گئیں۔جدت پسندی کی یلغار ہوئی۔ رجعت پرستی کی بنیاد ہلی۔ دقیانوسیت کی دیوار گری، روشن خیالی کاچراغ جلا۔کورانہ تقلید کادیابجھا،آنکھوں سے اندھیراچھٹا، ذہن سے جالاہٹا، دل سے غبار مٹا، افق سے ابرپھٹا، رجائیت کا سورج طلوع ہوا، جادۂ نجات چمکا،کاروانِ حیات آگے بڑھا۔

داستان گواوّل:

 تیسرا سبب جہالت کوجاناگیا،لاعلمی کومانا گیا، ناواقفیت کے ٹھکانوں کوپہچاناگیا، نئے علوم کاسورج اگا، ذہن کادریچہ کھلا۔ باطن روشن ہوا، شعوررہبربنا،عقل کا سکہ چلا، تابناک مستقبل دکھائی دیا۔

نئے علوم کے حصول کے لیے نیاراستہ اپنایاگیا۔ نئی زبان کو وسیلہ بنایاگیا۔ لسانِ غیر اور بیانِ غریب کو گلے لگایاگیا۔انسانی نفسیات کے برعکس قدم اٹھایاگیا۔

 نفسیاتِ انسانی تویہ ہے کہ جو چیز انسان کو نہیںآتی اس سے وہ کتراتاہے،اس کے پاس جانے سے گھبراتاہے۔ اس سے دوری بناتاہے۔ اس کے راستے میں روڑے اٹکاتاہے۔

داستان گودوئم:

 مگراس مشن کے مردِ محیرالعقول نے اس نفسیات کے برخلاف کام کیا۔ اس کے باغیانہ تیور کورام کیا۔ اسے مختلف تدبیروں سے زیرِدام کیا۔ اس نے ایسااس لیے کیاکہ وہ نئی زبان کے جادو کوجان گیاتھا۔ اس کی برتری کو مان گیاتھا۔ اپنی منزل کے نشان کو پہچان گیاتھا۔ اس پر منکشف ہوگیاتھاکہ یہی وہ زبان ہے جس کے لفظ ومعنی میں کامرانیوں کاگُرنہاں ہے۔ جس کی صوت وصداسے زمانۂ حال کی اصلاح اورمستقبل کی فلاح کا سُرعیاںہے ۔جس کے متون میں پوشیدہ بیش قیمت مال و منالِ جہاں ہے۔ جس کے موضوع ومواد میںموجود عصائے خضروالیاس مانندِ کمپاس قطبوں کاپتابتاتے ہیں۔ تاریکی میںراستہ دکھاتے ہیں۔گم کردہ مسافروں کو منزلوں تک پہنچاتے ہیں۔ جس کی نگارشات میںایسی ابجدی چابیاںبندہیں ہیںجوعلومِ جدیدہ کے در کھولتی ہیں۔ دل ودماغ میں ادراک وشعور کا نشہ گھولتی ہیں۔ آواز کی دستک سے خاموشیاں بولتی ہیں ۔جس کے لفظ لبوں پر آتے ہی علی بابائی سم سمی سُر بن جاتے ہیں۔ جن کے لمس سے خیالات کے خزانوں کے درکھل جاتے ہیں۔ یہ زبان وہ زبان ہے جو دوسروں کی دیواروں میں در اور پرایاگھروںمیںگھر کرنے کا ہنر سکھادیتی ہے۔ حاکم کو محکوم اور محکوم کو حاکم بنادیتی ہے۔

داستان گواوّل:

بھری ہے طلسمات سے یہ زباں

بناتی ہے لفظوں سے تیروکماں

دکھاتی ہے ایسے انوکھے سماں

کہ ہے جن سے حیرت زدہ آسماں

کراماتِ لوح وقلم بندہیں

طلسماتِ دیروحرم بندہیں

داستان گودوئم:

 مگر اپنی زبان میں زبانِ فرنگ پروہ چیخ مچی کہ توبہ بھلی۔ ردّ عمل میں لکنت والی زبان بھی کھلی اور مردہ ذہنوں کی شاخ بھی ہلی۔ ایساہائے ہوہوامانوآسمان ٹوٹ پڑا۔ واویلانے وہ زور ماراکہ تارِارض و سماجھنجھنا اٹھا۔ مثلِ جوار بھاٹاغیظ وغضب کا ریلاچلامگر ولولہ نہیںرکا۔درِ لسانِ فرنگ کھلارہا کہ وہ مردِ مہم پسند اپنے مشن میں پہاڑ کی طرح اڑارہا، مثلِ فولاد ڈٹارہا۔ مانندِ برف جمارہا۔ اس لیے کہ

داستان گواوّل:

محبت کے رن کاوہ فرہاد تھا

ارادے کاآہن تھا، فولادتھا

وہ لوکاتھا، شعلہ تھا، اک رعدتھا

عدوکے لیے ایک جلّاد تھا

ذرا بھی قدم ڈگمگاتا نہ تھا

کوئی خوف اس کو ڈراتا نہ تھا

داستان گودوئم:

 وہ رکتابھی کیوں؟ وہ جھکتابھی کیوں؟ کہ اسے یہ علم تھاکہ یہی وہ راہ ہے جس سے بندھی اس کی چاہ ہے، اسی راہ میں ، اس کامہرہے، اس کاماہ ہے، تخت وتاجِ شاہ ہے، کاخ و کلاہ ہے۔ٖحشمت و جا ہ ہے۔ درس گاہ ہے۔ خانقاہ ہے۔ اسی میں جائے پناہ ہے۔ اسی سے نورِ نگاہ ہے۔ وہ اچھی طرح واقف تھاکہ

داستان گواوّل:

طبل وعلم کوپانے کی تدبیر اس میں ہے

اپنے تمام خوابوں کی تعبیر اس میں ہے

سجتی ہے جس سے زیست وہ تصویر اس میں ہے

چھٹتی ہے دھند جس سے وہ تنویر اس میں ہے

حکمت کاگل کھلاہے زمینِ زبان میں

مخزن دبا ہوا ہے زمینِ زبان میں

داستان گودوئم:

 چنانچہ اس خوبی بسیار والی راہ نے وہ راہ بھی نکال دی جو گزرگاہِ خیال بنی۔ درس گاہِ لازوال بنی۔آنے والی نسلوں کے لیے مثال بنی۔ روایتی ذہنوں میں بغاوتی تیور کی بنیاد پڑی۔ عقل کی دیوار اٹھی۔ منطق کی چھت ڈھلی۔ استدلال کی عمارت کھڑی ہوئی۔

 سائنس کی روشنی میں مذہب منور ہوا۔ وجودِ معبود منطق سے مصور ہوا۔ تصوراتِ دین دلائل سے سمجھا ئے گئے۔ عقائد کے سائنسی تعبیرات بتائے گئے۔ ذہن و دل سے توہم پرستی کے جالے ہٹائے گئے۔ حقیقت پسندی کے مناظر دکھائے گئے۔

داستان گواوّل:

 عقل وشعور پرسان چڑھائی گئی۔ افہام وتفہیم کو دھار دلائی گئی، ذہن کو زیرکی سکھائی گئی۔ یہ عمل اس لیے ہوا،یہ دَر اس لیے کھلا، یہ دورِ نشۂ عقل اس لیے چلاکہ :

داستان گودوئم:

عقل کا نور مٹاتاہے اندھیرادل کا

کھلکھلاتا ہے ذکاوت سے سویرادل کا

عقل دیتی ہے درِ قلب پہ دستک جب بھی

رات سے دن میں بدل جاتا ہے ڈیرا دل کا

ضربِ ادراک بہت زورو زبر رکھتی ہے

ٹوٹ جاتاہے میاں ابر گھنیرا دل کا

آتشِ عقل جلائو تو ذراسینے میں

موم کی طرح پگھل جاتا ہے گھیرا دل کا

عقل کی ضرب سے نغمات نکل آتے ہیں

سخت پتھر سے بھی جذبات نکل آتے ہیں

داستان گو اوّل:

 جس مردِ خردمند نے درس گاہِ علم میں خانقاہِ عقل کی بنارکھی۔ خانۂ شفا میں مرضِ ذہن کی دوارکھی ۔ اپنی مناجاتوں میں لب پر منطقی دعارکھی ۔ اس کا سبب یہ تھاکہ :

سرحدِ ادراک سے واقف تھاوہ

ذہن کے افلاک سے واقف تھا وہ

زیر کی کی خاک سے واقف تھاوہ

عقل کی ہرچاک سے واقف تھا وہ

جانتاتھاعقل کی جادو گری

اس کو آتی تھی بلاکی ساحری

داستان گو دوئم:

 اس کو اس حقیقت کا بھی علم تھاکہ عقل کا علم سے رشتہ کیاہے؟ درمیاںدونوں کے رازِ سربستہ کیاہے؟اسرارِ خفتہ کیا ہے۔ منکشف تھا اس پر سرّنہاں۔ بھید اس کے آگے تھاعیاں،رمز دانش کا تھا لہجے سے بیاں۔

داستان گواوّل:

رمز یہ کہ علم سے آتی ہے عقل

علم سے ہی رنگ جھمکاتی ہے عقل

علم سے ہی نور چھلکاتی ہے عقل

علم سے ہی شان دکھلاتی ہے عقل

علم سے ہی ضوفشانی عقل کی

علم سے ہی حکمرانی عقل کی

داستان گو دوئم:

 جہاں علم سے عقل کو حاصل کمال ہے۔ دولتِ علم سے عقل مالامال ہے۔رُخِ دانش پر جاہ وجلال ہے وہیں مشاہدۂ علم و دانش کا یہ مآل بھی ہے۔

داستان گواوّل:

عقل ہے تو عقل میں آتاہے علم

عقل سے ہی رنگ دکھلاتا ہے علم

عقل سے ہی نور برساتا ہے علم

عقل سے ہی دل کو گرماتا ہے علم

عقل سے ہی ترجمانی علم کی

عقل سے ہی لن ترانی علم کی

داستان گودوئم:

 چنانچہ اک ادارۂ علم قائم ہوا۔ بانی اس کا مہتممِ اعلیٰ بنا، اس کی بقا کارکھوالابنا، عقل کا سکہ چلا، منطق کا شعبہ کھلا، سائنس کا ساتھ ملا، علّت ومعلول کازور بڑھا، کٹھ حجتی کا شور تھما، مہربلب نطقِ منطق بھی بول پڑا ؎

داستان گواوّل:

بند اک اک ذہن کا کھلتا گیا

نور اک اک آنکھ میں بھرتا گھلتا گیا

روشنی کا راستہ ملتا گیا

سایۂ ظلمات بھی ڈھلتا گیا

علم و دانش کی ندی بہنے لگی

تیرگی میں روشنی بہنے لگی

داستان گودوئم:

 پر جہل کی علم سے ٹھن گئی۔ درس گاہِ حیات میدانِ جنگ بن گئی، روشنائی لہومیں سن گئی ، جہالت کی تیغ لہرائی، دھند اور گہرائی۔ اہلِ علم کی جان پر بن آئی۔ اپنے پرائے سارے دشمن ہونے لگے ۔ راہ میں کانٹے بونے لگے۔ اِدھر اُدھر سے ذہن و دل میں نشتر چبھونے لگے۔ صرف اپنوں کی جہالت ہی نے روک نہیں لگائی۔ حکومتِ وقت کی حکمت ِعملی بھی آڑے آئی ، پڑوسی قوم کے جذبۂ رقابت نے بھی ٹانگ اڑائی۔ یعنی اس کے سامنے تین مورچے بن گئے۔ تین تین مدِمقابل تن گئے۔ قوم کی دشمنی کاسبب یہ تھاکہ قوم کو لگتاتھا:

داستان گواوّل:

 کہ اس سے اس کا سرمایۂ حیات چھیناجارہاہے۔ اس کے ہاتھ سے نکلااس کا سفینہ جارہاہے۔ اس کی انگشتری سے نگینہ جا رہاہے۔ اس کے دین کو بدلاجارہاہے ، اس کے ایمان کو مسلا جارہاہے، اس کے عقیدے کو کچلا جا رہاہے۔ اسے حق پرستی سے ہٹایا جارہاہے۔ باطل کی راہ پر لگایاجارہا ہے، اس کی شناخت کو مٹایاجارہاہے۔

داستان گودوئم:

 وہ بے گناہ تھا۔بعید از اشتباہ تھا۔ اس کادماغ اخلاص کی آماج گاہ تھامگر اسے گنہگار ، زیاں کار، منکرِ پروردگارسمجھا گیامگر وہ شخص جو خدائے بزرگ وبرتر کے حضور ہاتھ باندھے، دم سادھے اپنی مناجاتوں میں یہ کہتاہو:

داستان گواوّل:

’’اے خدا ! توہی ہمارا خالق ہے، توہی ہمارا مالک ہے۔تو ہی ہماری دعاہے ، اور توہی ہمارا مدعاہے۔تو ہی ہمارا معبود ہے اور تو ہی ہمارا مسجود۔ توہی ہمارا مقصد اور توہی ہمارا مقصود۔

داستام گواوّل:

 اور جو محبت ِرسول میں خدا سے یہ دعامانگتاہو ؎

الٰہی عشق میں احمد کے رکھ چور

ہے بیمارِ محبت اس کا مغفور

الٰہی دردِ عشقِ مصطفیٰ دے

پھر اس کے وصل کی مجھ کو دوادے

الٰہی مجھ کوکرخاکِ مدینہ

لگادے گھاٹ سے میرا سفینہ

داستان گودوئم:

 بھلاایسا شخص کیا خداکا انکار کرسکتاہے؟ رب ذوالجلال کی شان میں کیاکسی طرح کا گستانہ اظہار کرسکتاہے؟ کیااپنے کو داغ دار اور شرم سار کرسکتاہے؟تو کیاہمارے علماء اور مفتیان دین نادان تھے کہ انھوں نے اسے بے دین بتایا منکرِ خدا ٹھہرایا،مکہ شریف تک سے کفرکا فتویٰ منگوایا:

داستان گواوّل:

  نہیں، وہ باحواس تھے، صاحب ادراک اور حساس تھے، اوصاف فہم ان کے بھی پاس تھے مگر ان کا دائرہ محدود تھا، وہ دائرہ گرفتارِ رسوم وقیود تھا، ان کا ادراک سربہ سجود تھا۔ اس مردِ جنوں وخرد پسند کی طرح ان کا شعور آزاد نہیں تھا ۔ وہ مثل گردباد اور مانندِ سندباد نہیں تھا۔ اس میں اتنا بست وکشاد نہیں تھا۔ قوم کی موجودہ صورت حال کی کھائی، اس کی گہرائی اور مزید ہونے والی تباہی پر ان کی نگاہ نہیں تھی۔ قوم کی بگڑی کو بنانے ، اس کے ویرانوں میں چراغ جلانے اوراس کی زندگی سے اندھیروں کو بھگانے کی چاہ نہیں تھی۔ انھیں ملت کی مصیبت، ہزیمت اور مذلت کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ یہ نہیں سمجھ پارہے

تھے کہ دین دنیاسے دوری نہیں بناتا۔ انسانی زندگی کی راہ میں کانٹے نہیں بچھاتا، رہبانیت نہیں سکھاتا۔ باعزت زندگی گزارنے سے نہیں روکتا، عقل کو نہیں ٹوکتا، علم کو جہل کی آگ میں نہیں جھونکتا۔

داستان گواوّل:

 مگروہ شخص یہ جانتاتھا کہ خدانے عقل اگر دی ہے تواس کا استعمال بھی ہونا ہے۔ علم کی روشنی میں شعور کے قلم کو ڈبونا ہے۔ نوکِ قلم سے تاریکی کے دھبوں کو دھوناہے اس شخص کا ایمان تھاکہ اس نے جو کچھ کیانیک نیت سے کیا، جذبۂ محبت سے کیا، مقصدِ بہبودیِ ملت سے کیا۔ اس لیے خدا کے حضور جب وہ روبروہوگا، کلامِ عبدو معبود دوبدوہوگاتووہ سیاہ رونہیں سرخ روہوگا۔

داستان گودوئم:

 علمائے دین کی جانب سے رخنہ اندازی ، زبان درازی اوردشنام طرازی کا سبب شاید یہ تھاکہ ان کی قیادت کے چھن جانے کاامکان تھا۔ ان کی رہبرانہ ساکھ کا نقصان تھا، انھیں اندیشۂ ہلکان تھا۔ یہ محاذ بڑاہی کٹھن اور جوکھم بھراتھا، مقابلہ حد درجہ کڑاتھا۔ رن میں اپنوں سے سابقہ پڑاتھا۔انھیں سے لڑنا بھڑنا تھاجن کی بقا کے لیے قدم اٹھاتھا، رخت ِسفر بندھاتھا ۔وجود دائو پرلگاتھا۔

داستان گودوئم:

 اس محاذ پراپنوں نے وہ تیوردکھلائے کہ دشمن بھی شرماجائے، ایسے ایسے فتنے اٹھائے کہ قیامت آجائے، ایسے ایسے وارکیے کہ حوصلہ بھی بل کھاجائے، ایسے ایسے چرکے لگائے کہ نس ٹوٹ جائے، ایسے ایسے شعلے بھڑکائے کہ پسینہ چھوٹ جائے، اذیتوں کے ایسے ایسے تیر برسائے کہ آنکھ پھوٹ جائے مگر

داستان گواوّل:

وہ شکل میں انسان کی فولاد تھا کوئی

کٹ جائے جس سے کوہ بھی فرہادتھا کوئی

جل جائے جس سے ساری فضا رعد تھا کوئی

صرصرکی طرح شعلہ فشاں باد تھا کوئی

میدانِ کارزار میں رستم بنارہا

ہرگام پر چٹان کی صورت ڈٹارہا

داستان گودوئم:

 دوسرے محاذ پر وہ حریف تھا جو بڑاہی کمینہ تھا۔ عداوت اور کدورت سے بھرا جس کاسینہ تھا۔ جس کے دل میں کپٹ تھی، کینہ تھا۔ جس کی ذہنیت جابرانہ تھی، طینت منافقانہ تھی اور اور طبیعت شاطرانہ تھی۔ جس کے ہونٹوں پر زہر اور آنکھوں میں قہرتھااورذہن میں منصوبۂ تباہیِ شہرتھا۔ جودیکھنے میں گوراتھامگراندرسے کالاتھا۔ جو سادگی میں بھی آفت کا پرکالہ تھا۔جس کی شیریں باتوں میں بھی شعلۂ جوّالہ تھا۔ جس کے پاس طبل وعلم تھا، جاہ وحشم تھا، لوح وقلم تھا۔ جو ایسا جابروظالم تھاکہ اپنے خلاف اٹھنے والے سرکو دھڑسے اڑادے۔ موت کے گھاٹ سلادے۔ صفحۂ ہستی سے نام ونشاں مٹادے۔

داستان گو اوّل:

 ایسے دشمن سے پارپانا آسان نہ تھا۔ اس کے پنجے سے نکل جانا آسان نہ تھا۔ اس کے دام میں نہ آنا آسان نہ تھامگر وہ اس محاذ پر بھی سربلند ہوا۔ اپنے مشن اور معرکۂ حیات میں ایسا کاربندہواکہ آخر کار فتح مندہوا۔ جنوں کی راہ چلا اور ثابت ہوش مند ہوا۔ مکرِشاعرانہ کو حربہ بنایا، عدوکاطورپر اپنایااوراسے اچھی طرح باور کرایا کہ دیکھ ؎

داستان گودوئم:

ہم تری برتری کے قائل ہیں

ہم تری ہرروش پہ مائل ہیں

ہم فقط تیرے درکے سائل ہیں

لب پہ تیرے ہی بس فضائل ہیں

راہ تیری ہماری چاہ بنے

آستاں تیرا درس گاہ بنے

داستان گواوّل:

 اس نے تحریرسے ، تقریرسے، تدبیرسے اپنے سب سے بڑے شرپسند، نظربلند اورنہایت ہی ہوش مند حریف کو بھی یہ یقین دلادیاکہ ہم ہرطرح سے تمھاری تقلید کرہے ہیں ۔ تمھاری تہذیب کادم بھر رہے ہیں۔ تمہارے نقش قدم پر، پائوں دھررہے ہیں۔ ان کا فائدہ دکھاکر ، ان کا ہمنوابن کر اس نے اپناکام نکال لیا۔ قوم کی ڈگمگاتی کشتی کو سنبھال لیا۔ اپنے اندھیروں کو اجال لیا۔ اگر وہ لوہے سے لوہے کو نہیں کاٹتا، حاکم اور محکوم کے درمیان کی دوری کو حکمت عملی سے نہیں پاٹتااوربقول اپنی قوم کے دشمن کے تلوے نہیں چاٹتاتوآج قوم کے جو جگنواِدھر سے اُدھر جگمگاتے پھرتے ہیں، اندھیروں میں مسکراتے پھرتے ہیں، دوسروں کو بھی راستہ دکھاتے پھرتے ہیں، دکھائی نہیں دیتے، فضائوں میں جو زمزمے سنائی دیتے ہیں ، سنائی نہیں دیتے، مسافروں کوابھی جو راستے سجھائی دیتے ہیں ، سجھائی نہیں دیتے۔

داستان گودوئم:

 تیسرے محاذ پر اپناہی ایک بھائی تیرکی طرح تنا، دل ودماغ میں لیے تیغ انا، دشمن بنابیٹھاتھا۔ یہ حریف راہِ شوق کا رقیب بھی تھا اور دوسرے دشمن سے قریب بھی تھا۔ اس لیے خوش نصیب بھی تھا۔ اسے بڑے دشمن کاساتھ ملاہواتھا۔ دشمن سے گلے مل کر بھائی کے وجود کو مٹانے پہ وہ تلاہواتھا۔ اس کے لیے دشمنِ اعلیٰ کااسلحہ خانہ بھی کھلاہواتھا۔

 اس مردِ مومن کو اس رقیب سے بھی نمٹناتھا ۔ اس پر بھی چھپٹناتھا، اس کے دائوکوبھی الٹناتھا۔ یہاں بھی اس نے حکمت وتدبر سے کام لیا ، پیار سے عدو کے دل ودماغ پر اپنا گولاداغ دیا۔مشترکہ تہذیب ، آپسی میل محبت، اخوت ، مروّت کے واسطوں میں اسے الجھادیا، اس کے غصے کے شعلوں کو دبادیا۔ جوشِ رقابت اور خروشِ عداوت کو بٹھادیا۔ رقیب یہ نہ دیکھ سکاکہ وہ جوکرنے والاہے وہ جنوں کا کارنامہ ثابت ہوگااور وہ کارِجنوں کارِخرد مندانہ ثابت ہوگا۔ جوہدف اس نے طے کیاہے وہ حیرت میں ڈالنے والانشانہ ثابت ہوگا۔ وہ جس درس گاہ کی

بناڈالنے والا ہے وہ علم وفن کا میکدہ بن جائے گی۔ دانش کدۂ پرضیا بن جائے گی۔ خانقاہِ حکمت وشفا بن جائے گی۔ درودیوار مینارۂ نور بن جائیں گے۔ قومِ بے بساط کے لیے سازو سامانِ غرور بن جائیں گے۔ رقیب کو یہ نہیں معلوم تھاکہ اس کے ہاتھوں وہ کام ہونے والا ہے جسے جِن انجام دیا کرتے ہیں، جسے پری زاد کیاکرتے ہیں، جس کے کارساز دیوہواکرتے ہیں ۔دیو جو اپنے یس سے َاگنی کو ، وایوکو، ورشا کو، جل کو، تھل کو ، آکاش ، پاتال کو، سب کو بس میں کرلیتے ہیں۔

 وہ شخص کسی پری زادے سے کم نہیں تھا جس نے ایک بے آب و گیاہ زمین پر، نا مساعد حالات اور بے سر و سامانی کے عالم میں ایک ایسی درس گاہ کی بنیاد رکھ دی جس کے دامن میں دیکھتے ہی دیکھتے علم و دانش کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا اور جس کی فضائوں سے جو اَبر اٹھا، وہ سارے جہاں میں برسا، جس نے چپے چپے کو سیراب کیا، خطّے خطے کوسر سبزو شاداب کیا،ببولوں کو گلاب اور نرگسوں کو گلِ آفتاب کیا۔

داستان گو اول:

کہانی ہوئی ختم لیکن سنو!

ذرا غور لفظوں پہ اس کے کرو

معانی و مفہوم دل سے پڑھو

کہانی جو کہتی ہے اس کو لکھو

لکھو کہ کہانی یہ آگے بڑھے

زمانے کی راہوں کو روشن کرے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here