ساز

رات کا نہ جانے کون سا پہر تھا جب ایک دلکش ساز پر اس کی آنکھ کھلی- یہ ساز کیا تھا۔۔۔ کسی ساحر کا منتر تھا جو دھیرے دھیرے اسے اپنے حصار میں لیتا چلا جا رہا تھا- اس نے ادھر ادھر دیکھا، کمرے میں سوائے پرانی الماری، ایک قدیم گھڑی، چند بوسیدہ کتب اور ایک دھندلے آئینے کے سوا کچھ نہیں تھا- چھت پر کہیں کہیں مکڑی نے جالے بن رکھے تھے، ریشم کی ڈور میں لپٹے نازک پتنگے، مکڑی کی شکار کی مہارت کو خوب بیان کر رہے تھے- اس کی عادت تھی کہ وہ ہر پانچ سال بعد گاؤں میں واقع اپنے اس قدیمی مکان میں ایک دو راتیں ضرور بِتاتا تھا- اس نے اپنے ایک دوست کو بتایا تھا کہ اس قدیمی مکان میں راتیں بِتانے سے اس پر الہامی کیفیات طاری ہوتی تھیں- یہاں اسے سکون تو ملتا ہی تھا، لیکن اسے خود شناسی کے چند نئے سنگ میل پار کرنے میں بھی خاص مدد ملتی تھی- گو کہ اس کے دوست کو ان باتوں پر یقین نہیں تھا اور وہ ہمیشہ اسے وہم قرار دیا کرتا تھا- اس کے دوست کا ماننا تھا کہ اچانک ہر شے کو چھوڑ کر، شہر سے یہاں گاؤں میں اس کمرے میں رہنا، فرار اور بزدلی کے سوا کچھ نہیں ہے- زندگی رونق اور ہلچل کا نام ہے- اب بھلا کون رونقوں اور خوبصورت بھیڑ کو چھوڑ کر خود شناسی کے نام پر یہاں اس بوسیدہ ماحول میں آن رکے- یہ سراسر فرار ہے۔۔۔خود سے اور ارگرد کے لوگوں سے- وہ کبھی اس کا جواب نہیں دیتا تھا، بس مسکرا کر اسے دیکھتا اور پھر ایک لمبا سانس بھر کر دور افق کی جانب دیکھنے لگتا تھا-

یہ ساز کیا تھا جس نے رات کے اس پہر اس کی نیند میں خلل ڈالا تھا- وہ دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور اس ساز کو سننے لگا جو ابھی بھی اس کے کانوں میں بج کر اس کے دل و دماغ کو بے تاب کر رہا تھا- یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ویران صحرا میں، کوئی حدی خواں اونٹوں کی گھنٹیوں پر کوئی قدیم راگ گا رہا ہو یا شاید کسی چاندنی رات میں، گاؤں سے باہر جانے والی کچی پگڈنڈی پر، کوئی دل بے تاب بانسری کی دھن چھیڑ رہا ہو- یہ ساز ہر پل نئی کیفیت طاری کر رہا تھا- اچانک اسے محسوس ہوا جیسے کسی ندی میں، کوئی ملاح پتواروں کی تان پر پانی کا گیت گا رہا ہے یا پھر یہ کوئی آوارہ ہے، جو پچھلی شب اپنے قدموں کی چاپ سنتا ہوا گلیوں میں پھر رہا ہے- عجیب ساز تھا یہ، وہ جانتا تھا کہ یہ خاموشی کا ساز ہے، جسے سنتے ہوئے اک زمانہ ہوا تھا- اب کی بار یہ ساز ایسا تھا جیسے کوئی عاشق و معشوق چپکے چپکے سرگوشیاں کر رہے ہوں یا ہجر کا مارا کوئی، وصل کی حسرت لیے، ہر کروٹ محبوب کو پکار رہا ہو- اچانک اس کے ذہن میں ایک روشن چہرہ نمودار ہوا اور پھر غائب ہو گیا- رات کے اس پہر خاموشی کا یہ ساز ایسا تھا جیسے لمحے وجد میں آ گئے ہوں- وہ اس ساز کو سنتے سنتے گردوپیش سے بے خبر ہو چکا تھا، یا شاید وقت ہی ہوش کھو کر گزر جانے سے عاری ہو چکا تھا- کون جانے وہ کب تک اسی ساز میں گم رہتا، مگر کمرے کے کسی کونے سے جھینگر کے جھنگارنے کی آواز پر وہ ہوش کی دنیا میں واپس آیا- یقیناً یہ جھینگر، خاموشی کے ساز کو نہیں سننا چاہتا تھا-

وہ چپ چاپ اپنے بستر سے اٹھا اور تازہ ہوا کی خاطر دروازہ کھول کر باہر جانے لگا تو دیوار پر لٹکے دھندلے آئینے پر اس کی نظر پڑی- وہ خود کو دیر تک آئینے میں دیکھتا رہا- گو کہ آئینہ پرانا ہو کر دھندلا چکا تھا، مگر اب بھی وہ چہروں کے عکس احسن انداز میں پیش کرنے کے قابل تھا- اک زمانے بعد آئینہ دیکھنا اس کے لیے ایک عجیب احساس تھا- شہر میں رہتے ہوئے، مصروفیت کے طلسم میں بھٹکتے ہوئے اسے آئینہ دیکھے کئی روز گزر جایا کرتے تھے- آج بھی وہ بہت عرصے بعد آئینے کے سامنے آیا تھا- پہلے تو وہ خود کو اس آئینے میں پہچان ہی نہ پایا، مگر پھر اس نے آئینے میں موجود اپنے عکس کو غور سے دیکھا- اس کی نظر پہلے اپنی پیشانی پر پڑی، جو کچھ اندر کو دھنسی ہوئی اور کھردری لکیروں سے بھرپور تھی- ایک دور تھا جب اسے کشادہ اور شفاف پیشانی بہت پسند ہوا کرتی تھی، مگر کیا شہر بھی کبھی شفاف رہنے دیا کرتے ہیں۔۔۔؟ اسے خیال آیا کہ یہ لکیریں نہیں ہیں، یہ تو وقت کے وہ تھپیڑے تھے، جنہیں ایک عرصے سے وہ جھیلتا چلا آ رہا تھا- اس نے اپنی نظریں چہرے کے باقی حصوں پر دوڑائیں- وہ رخسار جو کبھی سادگی اور تازگی کا عکس تھے، اب وہ اندر کو دھنس کر اسے بتا رہے تھے کہ سوچ کی کوئی دیمک اس گوشت کو کھا چکی ہے- اس نے اپنے ہونٹوں کو دیکھا جہاں کئی احساس لفظوں کا روپ دھارنا چاہتے تھے مگر آواز میسر نہ تھی، لفظ لبوں پر ٹھہر کر انھیں کسی نخلستان کی تلاش میں چلنے والے پیاسے مسافر سی بناوٹ دے رہے تھے- اچانک اس کی نظر اپنی آنکھوں پر پڑی۔۔۔۔وہی بھوری اور شفاف آنکھیں جو گہرائی میں کسی بحر کو مات دینے والی تھیں- جن میں ڈوب جانے کی بہت سوں کو حسرت تھی، مگر وہی آنکھیں اب ان کواڑوں سی محسوس ہو رہی تھیں جن کے اندر روح کے گھاؤ واضح دکھائی دیتے تھے- کیا میں شکست خوردہ ہوں۔۔۔اس نے خود سے سوال کیا- یہ سوچ کر اس نے غور سے دوبارہ اپنی آنکھوں میں جھانکا تو اسے ان میں پراسرار چمک نظر آئی، جو اسے بتا رہی تھی کہ وہ شکست خوردہ نہیں ہے- وہ اب بھی مقابل ہے زمانے کے بدلاؤ سے، وقت کے تھپیڑوں سے اور لوگوں کے رویوں سے- مگر وہ آج بھی انتظار میں ہے- کون جانے کس انتظار میں؟

آئینے سے ہٹ کر اس نے ساتھ رکھی کچھ کتب پر جمی گرد کو ہٹایا اور سب سے نیچے پڑی ایک کتاب کھولی- یہ ایک مشہور رومانٹک ناول کا اولین ایڈیشن تھا جس پر تاریخ اشاعت مٹ چکی تھی- اس نے بے دلی سے کچھ ورق کھولے اور پھر جونہی کتاب رکھنے لگا، اس میں سے ایک ورق کتاب سے نکل کر نیچے گر گیا- اس نے ورق اٹھایا تو ناول کا وہ صفحہ جو کونوں سے پھٹ چکا تھا، اس پر جگہ جگہ کچی پنسل سے مختلف سطریں لکھی ہوئی دکھائی دیں- یہ ناول اس نے نہیں خریدا تھا، نہ اس نے اس ناول کو مکمل کبھی پڑھا تھا، مگر یہ کچی پنسل سے لکھی سطریں کہاں سے آئی تھیں، اسے علم نہیں تھا- اس نے ان سطروں کو پڑھنا شروع کیا- اس صفحے پر موجود اقتباس کے ساتھ کچی پنسل سے لکھا تھا، “مجھ سے محبت کیوں ہے؟” پھر ساتھ ہی لکھا تھا، “یہ سوال ہی بے معنی ہے”- کیا کوئی سوال بے معنی بھی ہوتا ہے، اس نے سوچا- صفحے کے دائیں جانب ایک اور سطر لکھی تھی، “روح کا روح سے ایسا کلام, جسے کسی کان کی ضرورت نہیں اور نہ وہ کسی زبان کی محتاج ہے- یہ وہ کیفیت ہے جہاں وصل کی راحت اور ہجر کی تلخی بیک وقت رگوں میں دوڑتی ہے-” شاید یہ پہلے سوال کا جواب تھا- صفحے کے بائیں جانب درج تھا، “ہجر اور وصل بیک وقت کیسے ممکن ہیں؟” یہ سوال تو وہ بھی کھوجتا چلا آیا تھا، مگر اسے کبھی اس کا جواب نہ مل سکا تھا- اس نے صفحے پر مزید نظر دوڑائی تو صفحے کے نچلے حصے پر لکھا تھا، “حاصل تو فقط خواہش ہے، اصل تو تمہاری توجہ اور نظر ہے، جو کسی حاصل پر انحصار نہیں کرتی، جو کسی فاصلے کی محتاج نہیں ہے”- وہ سوچنے لگا کہ یہ کون تھا جس نے ناول پڑھتے ہوئے ایسے مشکل سوال لکھے تھے- کیا لکھنے والے نے کبھی ان کا جواب بھی پایا ہو گا- اس نے مزید اس صفحے کو دیکھا تو اس کی پچھلی جانب درج تھا کہ کیا عشق میں وصل ممکن نہیں؟ اور اس کے نیچے ہی دھندلا سا لکھا تھا کہ راستوں کے خوشنما و خوبصورت نظاروں سے کنارہ کشی، مسافر کو منزل دکھاتی ہے۔۔۔ کبھی کنارہ کش ہو کے دیکھا ہے؟ عجیب شخص تھا کوئی، جس نے اس رومانس بھرے ناول پر اتنی گہری اور مشکل باتیں درج کی تھیں- لیکن وہ لکھنے والا کون تھا، جب کہ میں ہی ہمیشہ یہاں آیا کرتا ہوں، وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک کمرے کے بوسیدہ دروازے کی درزوں سے بہت تیز روشنی ابھری، اس کی آنکھیں چندھیا گئیں-

روشنی کچھ کم ہوئی تو اس نے دیکھا کہ اس کے سامنے بستر پر اس کا موبائل بج رہا تھا اور پاس ہی جین آسٹن کا ناول، “سینس اینڈ سینسیبلٹی” کھلا ہوا تھا جسے وہ پڑھتے پڑھتے شاید سو گیا تھا اور اب اس کی نظر ایک سطر پر پڑ رہی تھی جہاں لکھا تھا،
“Know your own happiness. You want nothing but patience – or give it a more fascinating name, call it hope.”

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here