گمشدہ قیادت کی تلاش میں

آزادی کے پچہتر سال بیت چکے ہیں،ہندوستانی جمہوریت کی طوفانی بھنور اب کافی پرانی ہو چکی ہے ،اس جمہوری طوفانی بھنور میں مسلمان کچھ اس طرح پھنسے ہوئے ہیں کہ اس طوفانی بھنور سے ان کا نکلنا نا ممکن نظر آتا ہے ، ہندوستانی سیاست دان خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم انکے گلے بی جے پی کی رسی ہو یا کانگرس کی ، چاہے وہ سپائی ہوں یا بسپائی بیچارے ہندوستانی مسلمانوں کو جہاں چاہتے ہیں گھماتے پھرتے ہیں گویا مسلمان کوئی بازاری یا سرکاری سامان کے مانند ہوں جن کو جہاں چاہا جب چاہا محض جھوٹی تسلیوں اور جھوٹے وعدوں کی بنا پر جس جہنم میں ڈھکیلنا چاہا ڈھکیل دیا
ہمارے ساتھ ہونے والے اس مذاق کے بارے میں کیا آپ نے کبھی سوچا ؟ کیا اس کی واحد وجہ یہ نہیں کہ ہم سیاست میں بے وقعت ہیں ہماری کوئی اپنی قیادت نہیں ،سیاست کے گلیاروں میں ہماری حیثیت ان خش و خاشاک کی طرح ہے جس کو تیز ہوا جہاں چاہتی ہے لئیے پھرتی ہے ۔
ہمارا سیاسی شعور محض اس حد تک ہے کہ ہم صرف بی جے پی کو ہی اپنے خلاف سمجھتے ہیں اور اس کے علاوہ تمام پارٹیاں ہماری خیر خواہ نظر اتی ہیں حالانکہ ہزاروں واقعات چینخ چینخ کر کہہ رہے ہیں کہ اے مسلمانو تم جنکو اپنا مسیحا مانتے ہو وہ تمہارے مسیحا نہیں بلکہ تمہارے چھپے دشمن ہیں وہ تمہارے سیاسی آقا نہیں بلکہ تمہارے کاروباری آقا ہیں جق جہاں موقع پاتے ہیں تمہیں بیچ کھاتے ہیں ۔
اپنی قیادت بنانے اور اسکو مضبوط کرنے کے لئے ہمیں محض اتحاد کی ہی ضرورت نہیں بلکہ سیاسی شعور کی بھی ضرورت ہے یقینا اتحاد کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر مسلمانوں میں جب تک سیاسی بیداری نہیں ہوگی ہم سیاسی شکست سے دوچار ہوتے رہیں گے ۔
یہ سوال آنا فطری ہے کہ اگر سیاسی پارٹیاں نہیں تو پھر کون ؟ یقینا یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور اس کا حل بھی بہت ضروری ہے ۔
شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ہو رہے پر امن احتجاج میں میں ہمارے بہت سے نئے لیڈران سامنے آئے نوجواں پرجوش سمجھ دار اور سیاسی و دینی شعور سے لیس جو اپنی قوم وملت کے لئے مخلص تھے جو اپنوں کی خاطر جان لٹانے کو تیار تھے اور بالآخر انہیں قید بند کی آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑا ۔ اب آپ پر یہ بات واضح ہو گئی کہ ہمارے قائدین کون ہیں ۔ ان لوگوں کو آگے کیجئےاور انکا ساتھ دیجئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here