آخری لاری

سرد رات کا نجانے کون سا پہر تھا جب مجھے محسوس ہوا جیسے کوئی میرا کندھا ہلا رہا ہے- میں نے مڑ کر دیکھا تو ایک کمزور بدن والا شخص، جس نے سردی سے بچنے کے لیے ایک کالی چادر اوڑھ رکھی تھی میری جانب دیکھ رہا تھا- ماتھے پر لکیریں، چہرے پر ہلکی سی جھریاں اور آنکھیں سیاہ مگر اندر کو دھنسی ہوئی تھیں- اس کے ہونٹ بتا رہے تھے کہ یہ شخص تمباکو استعمال کرنے کا عادی ہے- پچکے گالوں والے اس شخص نے دھیمے مگر حیرت بھرے لہجے میں مجھ سے پوچھا، رات ڈھلنے کو ہے، یہ آخری لاری ہے جو یہاں سے قصبے کی جانب نکل رہی ہے، کیا تم نے نہیں جانا؟ میں نے اس کی جانب سپاٹ چہرے سے دیکھا اور پھر دوسری جانب نظریں پھیر لیں۔

یہ پہلا موقعہ نہیں تھا، اس سے قبل میں کئی مرتبہ اس چھوٹے سے لاری اڈے پر پڑے ایک بوسیدہ بنچ پر آ کر بیٹھ چکا تھا- میں یہاں اس وقت تک بیٹھا رہتا جب تک یہاں سے نکلنے والی آخری گاڑی نظروں سے اوجھل نہ ہو جاتی- رات کے پچھلے پہر آخری گاڑی کے کئی ڈرائیور مجھے مسافر سمجھ کر مجھ سے پوچھتے تھے کہ کہیں میں نے تو ان کے ساتھ نہیں جانا, لیکن میرا جواب ہمیشہ خاموشی ہی ہوا کرتا تھا- اب اکثر ڈرائیور مجھے پہچان چکے تھے اور وہ مجھے حیرت سے گھورتے، پھر نظرانداز کر کے اپنے کام میں مگن ہو جاتے تھے- میں مسافر نہیں تھا اور نہ ہی میں کسی بس کا مالک تھا جو اپنے ڈرائیوروں پر نظر رکھنے کے لیے یہاں آن بیٹھتا تھا۔

 رات ڈھل رہی تھی اور میں ہمیشہ کی طرح خود میں گم اسی بوسیدہ بنچ پر بیٹھا تھا جب اس پراسرار شخص نے مجھ سے دوبارہ پوچھا، “رات ڈھل رہی ہے، تجھ کو کہیں نہیں جانا کیا؟ یہ قصبے جانے والی آخری لاری ہے”- اب کی بار میں نے ذرا غصے سے اسے دیکھا- وہ کہنے لگا، صاحب! کسی کا انتظار ہے یا خود سے روٹھے ہوئے ہو؟ جانے والے واپس نہیں لوٹا کرتے، تم کس کی راہ تکتے ہو؟ میں چپ چاپ اسے دیکھتا رہا- وہ مزید آگے بڑھا اور اسی بوسیدہ بنچ کے ایک کنارے پر بیٹھ گیا- وہ کہنے لگا یہ بس سٹاپ ہے بابو، یہاں پر یا تو بچھڑا جاتا ہے یا پھر انتظار کیا جاتا ہے، اور انتظار کی کوئی مدت نہیں ہوا کرتی- میں نے یہاں بے شمار بچھڑنے والوں کی نم آنکھوں میں جھانکا ہے اور کئی منتظر بے چین نگاہوں سے نظریں ٹکرائی ہیں- مگر تم بہت عجیب ہو، تمہاری آنکھوں میں انتظار بھی نہیں ہے اور نہ ہی تمہاری نظریں کسی کو کھوجتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں- لیکن پھر بھی رات کے اس پہر تم یہاں بیٹھے راستوں کی دھول چاٹتے، جانے والوں کی چاپ سنتے اور انتظار کرتی نگاہوں کو محسوس کرتے ہو- میں سوچ رہا تھا کہ بظاہر ان پڑھ یہ ڈرائیور ایسی گہری باتیں کیسے کر سکتا ہے- میں اس شخص سے ایسی باتوں کی توقع نہیں کر رہا تھا- میری طرف دیکھتے ہوئے وہ شخص کہنے لگا، خود سے روٹھے ہوئے بھی تو نہیں لگتے تم، کیونکہ جو خود سے روٹھ جائیں وہ ایسی جگہوں پر نہیں آیا کرتے- مجھے بڑا ترس آتا ہے ان لوگوں پر جو خود سے روٹھ کر ہر احساس سے عاری ہو جاتے ہیں، اور ایسے لوگ حاضر ہوں یا غیر حاضر، کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا- یہ کوئی عجیب ہی شخص تھا، خود ہی میرا جواب لیے بغیر بولے چلا جا رہا تھا- پرانے ڈرائیوروں کی یہ عادت ہوتی ہے، وہ بات سے بات چھیڑ کر بولتے ہی چلے جاتے ہیں- لیکن فی الحال میں کسی طویل گفتگو کا ارادہ نہیں رکھتا تھا- سو میں خاموشی سے اسے سنتا رہا- وہ کچھ دیر خاموش ہوا تو جیسے ہم دونوں ایک ہی سمت میں دیکھنے لگے جہاں اب مکمل خاموشی اور ویرانی تھی- آخری لاری بھی شاید نکل چکی تھی اور اب اڈے پر میرے اور اس پراسرار شخص کے علاوہ کوئی نہیں نظر آ رہا تھا۔

ہم دونوں نجانے کتنی دیر یونہی خاموش بیٹھے اس راستے کو دیکھتے رہے جس کے چہرے پر بچھڑنے والوں کے آنسو، محو انتظار لوگوں کی بے چینیاں، گزرنے والی لاریوں کے دھویں کی بو اور بے شمار انجان قدموں کے نشان جو ویران دوپہروں میں یا سنسان شاموں میں یہاں سے گزرتے ہوں گے، کسی پرچھائی کی مانند ابھر رہے تھے- اچانک وہ شخص بولا، مجھے دیکھو، میں مسافر نہیں ہوں پر محو سفر ہوں، منتظر نہیں ہوں لیکن آنکھیں محو انتظار ہیں، روٹھا ہوا نہیں ہوں مگر خود سے شکوے ڈھیر سارے ہیں- ان سب کے باوجود میں کبھی اس طرح خاموش گھنٹوں یہاں ایسے بوسیدہ بنچوں پر نہیں بیٹھا، لیکن تم عجیب شخص ہو صاحب، بے سبب یہاں بیٹھ کر مجھے مزید بے چین کرنے لگے ہو- خود کو سمجھو اور یہاں آنا چھوڑ دو، یہ جگہ تمہارے قابل نہیں ہے- یہ سنتے ہی میں نے اس کی جانب گہری نظروں سے دیکھا اور کہا، ” تم جانتے ہو میں یہاں کیوں بیٹھا ہوں؟ یہ لاری اڈہ مجھے یاد دلاتا ہے کہ کائنات میں ہر شے کسی نہ کسی منزل کی جانب متوجہ ہے، ہر کوئی منتظر ہے یا محو سفر ہے- مکین کوئی بھی نہیں اور مکاں یہ ہے نہیں- آرزؤں کے بل بوتے پر یہاں آخر کوئی کتنا طویل سفر کر سکتا ہے؟ مجھے ادھر بیٹھ کر احساس ہوتا ہے کہ بچھڑنا دراصل وصل کی جانب ایک قدم ہے اور انتظار درحقیقت قبل از وقت کسی شے کی جانب متوجہ ہو جانا ہے- اب میں یہاں آن بیٹھتا ہوں تو مجھے بچھڑنے والے ملنے لگتے ہیں، انتظار اپنی وقعت کھو دیتا ہے اور جانے والے مجھے وصل کی نوید سناتے ہیں- میں یہاں روٹھ کر نہیں آتا بلکہ خود شناسی کے ان مرحلوں کو پار کرنے آتا ہوں جن میں ہجر،انتظار، وصل اور تنہائی پنہاں ہیں- اب وہ شخص مجھے حیرت سے دیکھ رہا تھا اور اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہے اور کیا نہ کہے- رات مزید گہری ہو چکی تھی اور اڈے کی اکثر بتیاں بھی گل ہو چکی تھیں کیونکہ اب بھری لاری صبح کو ہی یہاں پہنچنی تھی- اس شخص نے مجھے مسکرا کر دیکھا اور کہنے لگا بتیاں گل ہونے لگی ہیں اب جاؤ یہاں سے، میری بھی آخری گاڑی کب کی نکل چکی ہے مگر مجھے اب نہ تو بچھڑنے کا خوف ہے اور نہ ہی لاری چھوٹ جانے کا- اب میں جب چاہوں وصل کی راحت سے آشنا ہو سکتا ہوں- میں اب کسی لاری کا محتاج نہیں رہا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here