کیسے دم لے یہ زندگی میری

کیسے دم لے یہ زندگی میری
خاک جب ٹھہری ہجرتی میری

ڈھلتے سورج کے لب پہ شکوہ ہے
چاند کو کیوں دی روشنی میری

میں ہوں شیشہ مگر سیاست کا
پتھروں سے ہے دوستی میری

میرا اشکوں سے جشن ہوتا ہے
تونے دیکھی نہیں خوشی میری

میرا مطلوب بہتا مشکیزہ
حاصلِ زیست تشنگی میری

نہ مرے نام کے چراغ جلے
نہ ہوا ہی کبھی چلی میری

میں مثالِ پتنگِ آوارہ
ڈور ہی اب نہیں رہی میری

میں نہ منظر ہی ہوں نہ پس منظر
کیوں کھلے گی بھلا کمی میری

میرا ہر لفظ ماتمی ہے سفر
شاعری بھی ہے بدعتی میری

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here