*وقف سے متعلق حکومت کی جھوٹے الزامات کی حقیقت
وقف کو لے کر دیش میں ایک ڈر کا ماحول ہے، وسوسے ہیں اور بے چینیاں ہیں ۔ دو ہزار بائیس ۲۰۲۲ میں ہر ناتھ سنگھ یادو کے ذریعے ایک پرائویٹ ممبر بل ، وقف کے بارے میں لاکر بہت ساری باتیں پھیلائ گئیں اور کہا گیا کہ دو ہزار نو ۲۰۰۹ سے وقف پراپرٹی ڈبل ہوگئ ہے ۔ حکومت نے کٹر ہندو عوام کو خوش کرنے کے لئے یہ بھرم اور غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کی کہ وقف لاء میں سرکار کو کچھ بھی اختیار نہی ہے ، مسلمان کسی بھی جائیداد پر وقف پراپرٹی کے ہونے کا دعویٰ کردیتے ہیں کہ یہ وقف پراپرٹی ہے اور وہ وقف پراپرٹی ہوجاتی ہے ، ساتھ ہی ساتھ وقف ٹریبونل کے بارے میں بھی عوام کو ورغلانے کی کوشش کی کہ وقف ٹریبونل کی من مانی کو روکنے اور اس کے خلاف جانے کا ادھیکار کسی بھی کورٹ کو کوئی پاور نہی ہے ، اس لئے دوہزار چوبیس ۲۰۲۴ وقف ترمیمی بل حکومت اصلاح کے لئے لائ ہے ، تاکہ ملک میں ایک نظام قائم ہوسکے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی یہ ساری باتیں جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے ۔
*(1) وقف سے متعلق کسی بھی جائیداد کے ثابت ہونے کے لئے ریاستی حکومت ، سروے کمشنر مقرر کرتی ہے* ۔ وہ کمشنر سروے کرتا ہے ، سروے کمشنر سیکشن چار ۴ وقف ایکٹ جو پارلیمنٹ نے پاس کیا ہے اس کے تحت انکوائری کرتاہے ، وہ انکوائری میں لکھتا ہے کہ پورے نمبر آف اوقاف کتنے ہیں ، ان کے نیچر کیا ہیں ، مقاصد کیا ہے یعنی کس مقصد کے لئے وقف کرنے والے نے اس جائیداد کو وقف کیا ہے وہ مقاصد لکھے گا ۔ وہ لکھتا ہے کہ اس سے کتنا انکم آرہاہے اور کتنا خرچہ ہورہاہے ، کتنا اماؤنٹ لینڈ ریونیو میں دینا ہے یا اور کوئ ٹیکس دینا ہے ۔
جب سروے کمشنر یا اسسٹنٹ سروے کمشنر جو ریاستی سرکار نے مقرر کئے ہیں ، انکوائری کرتا ہے تو وہ پورے پاور کے ساتھ انکوائری کرتاہے ، وہ گواہوں کو بلاتا ہے اور حکم دیتاہے ہے کہ لاؤ ریکارڈ دکھاؤ ، کونسا سرکاری ریکارڈ ہے ، کونسا ڈاکیومنٹس ہے جو ثابت کرتا ہے کہ یہ وقف پراپرٹی ہے ۔ زمینی سطح پر موقع واردات پر جاکر وہ تفتیش اور معائنہ کرتا ہے ۔ ( پھر یہ کہ ریاستی حکومت ضروری نہی کہ ایک بار کے سروے میں مطمئن ہوجائے ، اگر وہ مطمئن نہی تو دوسرا سروے اس کے بعد کرواسکتی ہے ) جب یہ ریاست اور اسٹیٹ کے مقرر کردہ لوگ سروے کمشنرس ، سروے کرلیتے ہیں تب سروے کمشنر ایک رپورٹ بناکر وقف بورڈ کو بھیجتا ہے ۔
*وقف بورڈ کی بحالی بھی ریاستی سرکار کرتی ہے* ۔سرکار کا کنٹرول ہوتا ہے وقف پر ، یہ کہنا کہ سرکار کا کنٹرول نہی ہے ، یہ قانون کو غلط طریقے سے جان بوجھ کر پڑھنا ہے۔
سرکار کے سروے کمشنر نے رپورٹ وقف بورڈ کو بھیج دی ، وقف بورڈ کو چھ مہینے کے اندر اندر اس کو واپس سرکار کو بھیجنا ہوتا ہے ۔ اور پھر اس کے بعد سرکار ، سرکاری گزٹ میں ان ساری وقف پراپرٹی اور جائیداد کو شائع کرواتی ہے ۔
اتنے سارے مراحل کے بعد بھی حکومت کا وقف پراپرٹی سے متعلق جھوٹ بول کر ہندو عوام کو مسلمانوں کے خلاف ورغلانے کی کوشش کرنا ، ملک کو کمزور کرنے کی سازش ہے ۔ کسی بھی پراپرٹی کو یہ کہدینا کہ یہ وقف ہے اتنا آسان نہی ہے ۔
کہانی یہ ہے کہ بہت سی جائیدادیں جو وقف ہے ، جس پر کہ غیر قانونی قبضے ہوگئے ، کچھ تو مسلمانوں نے وقف پراپرٹی کے ساتھ خیانت کیا اور کچھ پر غیر مسلموں نے قبضہ جما لیا ، ایسے میں جب وقف پراپرٹی کی بازیابی کی جب کبھی کوشش کی گئ اور ان تمام مقبوضہ وقف جائیدادوں کو حاصل کرنے کی کوشش کی گئ تو لوگوں کو لگنے لگتا ہے کہ یہ غلط طریقے سے کسی بھی پراپرٹی کو وقف کہ دیتے ہیں اور وہ وقف ہوجاتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔
*وقف ٹریبونل کے من مانی کی حقیقت*
وقف پراپرٹی سے متعلق جب کوئی تنازع اور جھگڑا پیدا ہوجائے تو وقف بورڈ اتھارٹی یا متولی اس معاملے کو ٹریبونل میں لے کر جاتے ہیں ۔ ٹریبونل کا فیصلہ آخری ہوتا ہے ۔ یہ ٹریبونل کے لاء اور قانون کا اصول اور پرنسپل ہے ۔ یہ صرف وقف ٹریبونل کے ساتھ خاص نہی ہے بلکہ ٹریبونل کے لاء کا اصول اور پرنسپل ہے کہ اس کا فیصلہ عام طور پر آخری ہوتا ہے ۔
(ملک میں تقریباًً ستر ۷۰ ٹریبونلس ہیں) ۔
ٹریبونل کے فیصلہ کے خلاف آپ کو سول کورٹ میں نہی جانا ہوتاہے ، آپ کو یا تو سپریم کورٹ کا فورم ملتا ہے یا ہائی کورٹ کا فورم ملتا ہے ۔ یا پھر آپ ، رٹ جیوریسڈکشن میں جاتے ہیں ۔
*پھر ایک میعاد ہے ، لاء آف لیمٹیشن* ہے کہ جب ریاست نے اوقاف کی لسٹ جاری کردی تو اس کے خلاف ایک سال کے اندر اندر اگر کوئی پارٹی متاثر ہے یا کسی کا حق اس میں شامل ہے وغیرہ وغیرہ تو وہ ریاست کے ذریعے وقف پراپرٹی کی لسٹ جاری کرنے بعد ایک سال تک اپنی فریاد لے کر اس کے خلاف جاسکتا ہے ۔
*ٹریبونلس میں کون کون ہوتے ہیں ?*
( 1) ٹریبونل میں ایک آدمی وہ ہوتا ہے جو اسٹیٹ جوڈیشل سروسیز کا ہو۔ Not below the rank of district judge, session judge,or civil judge of class one .
یہ ٹریبونل کا چیرمین ہوتا ہے ۔
(2) دوسرا آدمی وہ ہوتا ہے جو اسٹیٹ سول سروسز کا ہو ، اگر بہار کا معاملہ ہے تو BPSC جو اگزام کراتی ہے بہار پبلک سروس کمیشن کا اس کا آفیسر ہو۔
Not below the rank of additional district Magistrate ( A.D.M.)
اے ڈی ایم ۔ ہو ۔
(3) تیسرا شخص وہ ہوگا جسکو مسلم لاء کی ، جیورسپوریڈینس فقہ کی معلومات ہو۔
پھر سیکشن 83 میں کہا گیا کہ ٹریبونل کے خلاف اپیل نہی ہوگی۔ لیکن ہائ کورٹ ، کوئ بھی ریکارڈ مانگ سکتی ہے ۔ بورڈ کی اپلیکیشن پر ، اپنے آپ ، یا کوئ شخص جو ٹریبونل کے فیصلہ سے ایگریوڈ یا ایفیکٹیڈ ہے ۔
*پھر وقف ایکٹ میں جو پارلیمنٹ نے پاس کیا ہے* ۔ اس کے حساب سے ایک مرکزی وقف کونسل ہوگی ۔ سینٹرل وقف کونسل کا صدر ، بھارت سرکار کا کیبینیٹ منسٹر جو وقف کا انچارج ہوگا۔ تین اور لوگ مرکزی حکومت منتخب کرتی ہے ۔ اچھی شبیہ والی مسلم آرگنائزیشن کو بھی جگہ دی جاتی ہے ، اس آرگنائزیشن کے تین نمائندے ہوتے ہیں ۔
چار ایسے لوگوں کو بھارتیہ سرکار منتخب کرتی ہے جن کا تجربہ ایڈمنسٹریشن میں ، مینیجمنٹ میں ، فائنانس میں ، آرکیٹیکچر میں ، میڈیسن وغیرہ میں ہو۔
تین ممبرس آف پارلیمنٹ ہوتے ہیں ، دو لوک سبھا سے اور ایک راجیہ سبھا سے ۔
پھر جو بورڈ کے چیئرمین ہیں ، دیش میں تقریباًً بتیس ۳۲ وقف بورڈ ہیں ، الگ الگ ریاستوں اور کچھ یونین ٹریٹیری کو ملاکر، وہ بائ لوکیشن اس میں شامل کئے جاتے ہیں ۔
پھر دو لوگ ایسے ہوتے ہیں یا ہونے چاہئے جو سپریم کورٹ کے جج رہ چکے ہوں یا ہائی کورٹ کے جسٹس رہ چکے ہوں ۔
پھر ایک ایسا ایڈوکیٹ ہونا چاہئے جو قومی سطح پر معروف ہو۔
پھر ایک آدمی وہ ہوتا ہے جو متولی کی طرف سے نمائندگی کرے۔
پھر مسلم لاء کے تین ایسے اسکالرس ہونے چاہئیں جو معروف ہوں، اور اسلامک فقہ اور لاء کی مہارت رکھتے ہوں ۔
پھر اگر ڈسپیوٹ تنازعہ، سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ میں ہوجائے تو معاملہ بورڈ آف ایجوکیٹرس کے سامنے جاتا ہے ۔
یہ بورڈ آف ایجوکیٹرس ، سینٹرل گورنمنٹ بناتی ہے ، اس بورڈ میں ریٹائرڈ جج آف سپریم کورٹ اور ریٹائیرڈ چیف جسٹس آف ہائ کورٹ ہوتے ہیں ۔
وقف بورڈ کے لیۓ یہ شرط ہے کہ اس کے ممبرس منتخب تو اسٹیٹ گورنمنٹ کرے گی لیکن وہ ممبرس مسلمان ہونے چاہئے ۔ لیکن اب اس شرط کو حکومت ختم کرنا چاہتی ہے ۔ وقف کونسل ، وقف بورڈ اور وقف پراپرٹی میں حکومت کی اتنی ساری دبش اور کنٹرول کے باوجود حکومت کا مسلمانوں پر غلط الزام لگاکر ہندو عوام کو ورغلانے کی کوشش کرنا سراسر ناانصافی اور بیمانی ہے ۔ وقف پراپرٹی کی بازیابی اور تحفظ کے لئے پوری طاقت کے ساتھ کھڑا ہونا ہم سب کی ملی و دینی ذمّہ داری ہے ۔