نثری نظم “لفظ محبت”

کیا واقعی لفظِ محبت
کوئی وجود رکھتا ہے؟
یا یہ محض، ایک جھوٹا افسانہ ہے؟
ہزاروں دفعہ بےانتہا محبت کا وعدہ
پر عمل کا دامن، بلکل… ویرانہ
فقط ان چند میٹھے الفاظ کا کہنا… اور تجھ احمق کا لٹ جانا
واللہ….
اگر تجھے وہ ان چاند تاروں کے وعدوں سے پرے
نوازے عزت کے معیار پر
فراہم کرے، ایک مقدس رشتہ
شعبوں سے اٹھ کر؛ مکمل اعتماد کا رشتہ
بلا شبہ، ہر لمحہ تیری اس سے حسن، اسکی تجھ سے حسن
یہی تو ہے اصل محبت کا فلسفہ

نہ جانے کیوں پر اب محبت کرنے کو دل چاہتا ہے
کس کو اپنا کہنے کو دل چاہتا ہے
نہ جانے کب ملے گا وہ جو ہمسفر بنے گا میرا
کیا معلوم محبت ہوگی اور نکاح
یا نکاح سے محبت کا سلسلہ شروع ہوگا

شاید ہو کہ کل یوں ہو جائے محبت جس سے، ملنا ہی نہ ہو اس سے تقدیر میں میری
پر اختیار میں جس حد تک ہوگا،
پاکیزہ ہی یہ رشتہ ہوگا،
یقیناً آغاز اسکا نکاح سے ہوگا

پر اب نہ جانے کیوں مزید انتظار نہیں ہوتا
محبت میں صبر کا یوں امتحان کیوں ہے ہوتا
آرزو ہے مجھے اب ایک حسین ہمقدم کی
جو چاہے اتنا مجھے کہ غرور ہو جائے مجھے اسکے میرا ہونے پہ

ہو حسن کچھ یوں اس رشتے میں کہ ہر لمحہ گواہ بنے ہمارا
ہو احترام یوں کہ بس جو دیکھے مرید ہو جائے ہمارا

خواہشیں تو میری شاید کچھ زیادہ ہی طویل ہیں
پر کیا ایک بےانتہا چاہنے والے کی آرزو حق نہیں ہر ذیب کا

شاید یہ مختصر سی خواہش، ایک بہت بڑی نعمت ہے خدا کی
ایک ٹوٹ کر چاہنے والا، جسے تم چاہو اسکی چاہت سے بھی زیادہ میسر نہیں ہوتا ہر کسی کو

یہ محبت بھی نہ ایک حسین سفر ہے، میسر نہیں ہوتا ہر کسی کو

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here