نثری نظم

کسی بیمار سے خدمت کی توقع ہی کیا کی جائے

جنہیں چھوڑ کر جانا ہی راس آتا ہو ان کے ساتھ سفر کی تمنا ہی کیا کی جائے

اور ایسے فیصلے لینے کا شوق ہو جنہیں اے حسن،

ان سے گفتگو کی آرزو ہی کیا کی جائے

جنہیں حالِ دل پر رحم نہ آئے

ان سے آخر امید ہی کیا کی جائے۔

جہاں تشریح جذبات کی ہو نہ سکے

قلب بے سکون ہوا کرتا ہو جہاں،

حسن، اُس قربت کی تمنا کریں پھر کیوں

صرف تکلیف کا باعث ہو ہر اک چیز جہاں ۔

زندگی ہوگی گلزار

تو صبر تو رکھ

وہ کاتبِ تقدیر ہے

تو اعتماد تو رکھ

کیا ہوا جو پوری نہ ہوئی حسرتیں تیری حسن؟

تو مایوسی کا دامن تھامے نہ رکھ

تین درجے ہیں دعا کی قبولیت کے

تو خود کو اپنی خواہشوں کا غلام نہ رکھ

آخر، ستر ماؤں سے بڑھ کر محبت ہے میرے خدا کی

تو اے نادان خدا کے فیصلوں سے بغاوت تو نہ رکھ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here