مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے نظامِ ہاسٹل میں سدھار کی ضرورت

           علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستان کی مرکزی اور مشہور ومعروف ان یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے ، جسے 2024 میں NIRF کے ذریعہ آٹھواں مقام حاصل ہواہے ، جہاں تک اس یونیورسٹی کے تعلیم ، طعام اور لائبریری کے نظام کی بات کی جائے تو یہ ساری چیزیں دوسری یونیورسٹیوں کی بہ نسبت بہتر ہے ، یہاں کے موجودہ زیادہ تر اساتذہ طلبہ کے تئیں ہمدردانہ اور مخلصانہ جذبہ رکھتے ہیں ، لیکن ہاسٹل کا نظام انتہائی خراب اور ناگفتہ بہ ہے ، حالانکہ اس یونیورسٹی میں ہاسٹل کی کمی نہیں ہے ، لیکن اس کے باوجود اکثر طلبہ کو تین تین سالوں تک ہاسٹل میں روم نہیں مل پاتاہے اور یہاں کے ہاسٹل کے بدتر نظام سے ہر عصری تعلیم یافتہ شخص بخوبی واقف ہے اور اسی وجہ سے اس مسئلہ کو بہت سے صاحب قلم نے سنجیدگی سے اٹھایا ہے ، یہ سوچ کر کہ شاید میری آواز یونیورسٹی کے انتظامیہ تک پہنچے گی اور وہ اس نظام کو بہتر بنانے کے لیے ہر ممکنہ اقدامات کرے گی ، تاکہ دور دراز علاقوں اور ریاستوں سے یہاں حصول علم کے لیے آئے ہوئے طلبہ کو ہاسٹل کی محرومی سے ہونے والی بہت سی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے ، لیکن ابھی تک انتظامیہ کا دھیان اس طرف اتنا مبذول نہ ہوسکا ، جتنا کہ ہونا چاہیے ، طلبہ کو تین تین سالوں تک ہاسٹل میں روم نہ ملنے کے کئی وجوہات ہیں ، جن میں سے چند اہم اور بڑے وجوہات مندرجہ ذیل ہیں-

1- سب پہلی وجہ یہ ہے کہ کورس کی تکمیل کے بعد / پی ایچ ڈی مکمل کرلینے کے بعد بھی طلبہ یونیورسٹی کے ہاسٹل کو چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے ہیں اور وہ کئی کئی سالوں تک روم پر قابض بنے بیٹھے رہتے ہیں اور Allotment کرنے والوں کی ایسے روم میں Allotment کرنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی ہے ، مثال کے طورپر آفتاب ہال میں Allotment کرنے کی ذمہ داری عقیل نامی شخص کی ہے ، جس روم میں شریف طالب علم ہوتاہے ، اسی روم میں وہ Allotment کرتاہے اور جس روم میں کوئی بدمعاش طالب علم ہوتاہے ، اس روم میں وہ پہلے سے Allotment کیے گئے فارغ التحصیل طالب علم کے نام کو رجسٹر پر درج کیے رہتاہے (تاکہ کوئی طالب علم D.s .w میں شکایت درج کرے تو وہ اس رجسٹر کو دیکھا کر بآسانی چھٹکارا حاصل کر لے ) اور اس روم کو مکمل طورپر اس بدمعاش اور دھمکی دینے والے ایک طالب علم کے حوالے کردیتاہے ، اب چاہے وہ تن تنہا رہے یا اپنے جاننے والے یونیورسٹی میں غیر داخل طالب علم کو لاکر رکھے یا وہ حسب مرضی جو بھی کرے –

2- ایم اے مکمل کرلینے کے تقریباً ایک سال بعد پی ایچ ڈی کا داخلہ امتحان ہوتاہے ، اس دوران ایم سے فارغ شدہ طلبہ کو پی ایچ ڈی Applicant کے نام پر انتظامیہ کی طرف سے ہاسٹل میں رہنے کی اجازت حاصل ہوتی ہے ، جبکہ اگر انتظامیہ ایم اے مکمل ہونے کے فوراً بعد ہی پی ایچ ڈی کا داخلہ امتحان منعقد کرادے تو سینکڑوں روم میں نو وارد طلبہ کو بآسانی سیٹ مل جائے گی –

3-بہت سے طلبہ کو قانونی طورپر روم دے دیاجاتا ہے ، لیکن اس روم میں پہلے سے موجود طلبہ انہیں shifting دینے سے انکار کردیتے ہیں اور پھر وہ وارڈن ، پرووسٹ آفس اور پراکٹر آفس کا چکر لگاتا رہتا ہے ، لیکن اس بس طالب علم کی بے بسی سننے اور اسے روم میں Shifting دلاکر ہاسٹل سے باہر رہنے کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے یہ سوچ کر ان میں سے کوئی بھی تیار نہیں ہوتاہے کہ کسی بد معاش طالب علم سے ہم بے فائدہ جھگڑا مول لینے کیوں جائیں ، جس طالب علم کا مسئلہ ہے وہ جانے –

4- وارڈن اور پرووسٹ روم میں Allotment کرکے Shifting دلانے میں ناکام ہونے کے باوجود بھی اس مسئلہ کو رجسٹرار اور وائس چانسلر تک پہنچنے نہیں دیتے ہیں ، بلکہ اس بے بس طالب علم کو جھوٹی تسلی دینے اور کچھ دنوں تک پرووسٹ آفس کا چکر لگوانے کے بعد اس کا مسئلہ دبا دیتے ہیں –

      علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہاسٹل میں یہاں کے داخل طلبہ کو روم نہ ملنے کے یہ چار اہم اور بڑی وجہ ہے ، ورنہ چھوٹی چھوٹی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں ، اسی وجہ سے چلتے پھرتے ، چائے کے ہوٹلوں پر یہاں تک کہ بعض اوقات درسگاہوں اور لایبریری میں بھی یہاں کے اکثر طلبہ کی زبانی Allotment اور shifting کے چرچے ہی سننے کو ملیں گے؛ بلکہ اگر آپ ایک ماہ ہاسٹل میں رہ گیے تو شب وروت اس تذکرہ کو سن‌کر آپ کا کان اوب جائے گا اور ایسا معلوم ہوگا کہ یہاں کے طلبہ کا سب سے بڑا مسئلہ اور ان کی زندگی کا نصب العین Allotment کراکر کسی بھی طرح shifting لے لینا ہے ، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ رہائشی تعلیمی اداروں کا ایک اہم اور بڑا حصہ ہاسٹل کا نظام بھی ہے اور ظاہر ہے کہ جب انتظامہ قانونی طورپر منظم طریقہ سے اس پر توجہ نہیں دے گی تو طلبہ خود اس جانب غیر قانونی طورپر غیر منظم طریقہ سے عملی اقدامات کرنے پر مجبور ہوں گے اور اس طرح اپنے زمانہ طالبعلمی کے بیش قیمت اوقات کو ان ہی کاموں میں ضائع کرکے اپنی دنیا سنوارنے کے بجائے اسے برباد کر بیٹھیں گے –

         یقیناً ہاسٹل کے بدتر نظام کو دیکھنے والا ہر شخص یہ کہنے پر مجبور ہے کہ شاید انتظامیہ اور پرووسٹ وغیرہ نے یہاں کے ہاسٹل کے نظام کو نہ سدھر والی شی سمجھ کر چھوڑ دیا ہے ، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آخر کب تک ہاسٹل کا یہ بدتر نظام چلتا رہے گا اور کب اس جانب یہاں کے انتظامیہ کی توجہ مبذول ہوگی –

       یقیناً یہاں کے ہاسٹل کے بدتر نظام کے تعلق سے بہت سے قلمکاروں نے لکھا ہے اور خوب لکھا ہے ، لیکن اس کا کوئی معتدبہ فائدہ دیکھنے کو نہیں ملا ، ممکن ہے کہ میرے بھی اس تحریر کا کوئی خاطرخواہ فائدہ نہ ہو ، لیکن کئی سالوں سے یہ بدتر نظام کو دیکھتے رہنے کی وجہ سے نہ خواہی کے باوجود اس مسئلہ پر خامہ فرسائی کرنے پر مجبور ہوگیا اور پھر اپنے خیالات کو صفحۂ قرطاس پر بکھیردیا ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here