مدارس کے موجودہ طلبہ اگر اب بھی بیدار نہ ہوئے تو ۔۔۔

:دوررس و دور بیں مفکر علامہ ظفر علی خان نے کہا تھا

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا

  احقر اس میں صرف ایک لفظ تقاضائے وقت اور مفادی دنیا کے پیش نظر بدل کر یہ کہنے پر مجبور ہے کہ

خدا نے آج تک اس *فرد* کی حالت نہیں بدلی

نہ ہوجس ٠٠٠٠٠٠

       آج کل جتنے نئے فضلاء ہیں ، وہ اپنے زمانۂ طالب علمی میں اکابرین علماء امت کی نہ صرف یہ کہ اپنے حقیقی باپ سے زیادہ قدر کرتے اور اہمیت دیتے ہیں ، بلکہ وہ ان کے حددرجہ اندھ بھگت بھی بن جاتے ہیں ، دوران طالب علمی وہ اپنی دنیا کو سنوارنے، سجانے اور آباد کرنے کی سوچنے اور اس سمت کوئی عملی اقدام کرنے کے بجائے اکابرین علمائے امت کی ذکر خیر ، مبالغہ آمیز تعریف اور غلو تک بڑھے ہوئے معتقد انہ کلام سے شب وروز اپنی زبان تر رکھتے ہیں اور ان کے بہکاوے میں آکر ان کی بات کو اپنے والدین (جو دنیا وآخرت دونوں کے اعتبار سے ان کے حقیقی خیر خواہ ہیں )کی بات پر ترجیح دیتے ہوئے کوئی ہنر یا مادی زبان سیکھنے ، نئے سرکاری و پرائیویٹ کورس کرنے ، اور سرکاری امتحانات دینے سے نہ صرف بچتے ہیں ، بلکہ ان چیزوں کو حرام بھی سمجھتے ہیں ۔

جس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ زمانہ طالب علمی تک ان نام نہاد خیرخواہان اکابرین امت کی مدح سرائی میں اپنے بیش قیمت وقت کو ضائع کرکے جب طالب علمی کی دس/ پندرہ سالہ ایک طویل مدت کار پوری کرکے نکلتے ہیں اور گھر 🏠 کابوجھ ان پر آن پڑتاہے ، تو انہیں ملازمت کی تلاش کی فکر دامن گیر ہوتی ہے اور وہ مسجد یا مدرسہ کی آٹھ ، دس ہزار تنخواہ (جو کہ ایک انگوٹھا چھاپ مزدور کی ماہانہ تنخواہ کا نصف ہے) والی ملازمت کو خدمت دین کے لیے تمام قسم کی ملازمت پر ترجیح دیتے ہوئے تلاشنا شروع کرتے ہیں ، اپنے ان اکابرین امت کو صبح وشام فون کرتے ہیں ، جنہوں نے انہیں زمانہ طالب علمی میں یہ کہ کر ہنر سیکھنے اور سرکاری امتحانات دینے سے روکا تھا کہ ” دنیا میں ہم مولویوں کو چھوڑکر سب لوگ پریشان ہیں ، نیز ہم مولویوں کے آٹھ ہزار کی آمدنی میں ایسی برکت ہوتی ہے جتنی برکت دولاکھ کمانے والے پروفیسرز ، ڈاکٹرز اور انجینئرز کی کمائی میں نہیں ہوتی ہے ، اور اکابرین امت ان سادہ ذہن کے طلبہ سے یہ چھپا لیتے ہیں کہ ہمیں اکابرین امت سمجھ کر مسلم قوم مہینے کے تیس دن میں سے کم‌ از کم دس دن ضرور کسی نہ کسی پروگرام میں بلاتی ہے اور ایک پروگرام کی فیس مع مٹن بریانی اور فور ویلر گاڑی کے دس ہزار ہوتی ہے اور ہدیہ کانام دے کر اس موٹی رقم کے لینے دینے کو کارخیر میں شمار کیا جاتا ہے- نیز صبح وشام معتقدین و متوسلین کی جانب سے ہدیہ کی بوچھاڑ ہوتی ہے –

خیر جب وہ حقیقی عاشق صبح وشام اپنے محبوب حقیقی کو جگہ کی تلاش کے لیے فون کرتاہے تو کچھ دن تک تو وہ انہیں یہ کہ کر تسلی دیتے ہیں کہ جگہ مل جائے گی ، میں کوشش کررہاہوں ، لیکن حب ان اکابرین کو بھی جگہ نہیں ملتی تو وہ ان بیچاروں کی کال ریسیو کرنا چھوڑ دیتے ہیں –

      ظاہر ہے کہ جب ہر سال ہندوستان کے صرف دیوبندی مکتبہ فکر کے مدارس سے آٹھ سے دس ہزار طلبہ فارغ ہوتے ہیں نیز دیگر مکاتب فکر کے مدارس سے بھی کم وبیش مذکورہ بالا تعداد میں ہی طلبہ اپنی دینی تعلیم کی تکمیل کرتے ہیں اور مدارس ومساجد کی جو تعداد پہلے تھی اب بھی وہی ہے ، تو کہاں سے ان تیس / چالیس ہزار نئے فارغ التحصیل طلبہ کو جگہ مل سکے گی ، نیز وہ طلبہ تو اکابرین امت کو حقیقی خیرخواہ سمجھ کر ہنر سیکھنے یا سرکاری امتحانات دینے سے بھی مکمل باز رہے ؛ اس لیے مدارس ومساجد کی قلیل تنخواہوں والی جگہوں سے ناامید ہوکر ہندوستان کے عظیم بازار کارخ کرتے ہیں تو وہاں بھی ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی ہے ، اب اس سادہ ذہن اندھ بھگتوں کی آنکھ کھلتی ہے اور پھر صبح وشام وہ ان نام نہاد اکابرین امت کی پول کھولنا شروع کردیتے ہیں اور ان کی طرف سے جو گمراہ کیاگیاہے ، اسے واضح کرناشروع کردیتے ہیں تو مدارس کے جو موجودہ طلبہ ہیں ، وہ بھی چوں کہ اس وقت اندھ بھگت بنے ہوئے ہیں ، چنانچہ وہ اس نام نہاد خیرخواہان اکابرین امت کو نبی اور رسول سمجھ کر اپنے سینئرز رفقاء کرام کی توہین کرنا اور ان کو سب وشتم کرنا اور ان کے خلاف سوشل میڈیا پر ناگفتہ بہ کلمات کہنا شروع کردیتے ہیں اور چوں کہ نام نہاد خیرخواہان اکابرین علمائے کرام کو تو اپنے پیری و مریدی کی دوکان چلانی ہے ، اس لیے پہلے انہوں نے ان سینئرز حضرات کو استعمال کیا تھا اور اب ان کے جونیئرز یعنی ان موجودہ طلبہ کو یہ کہ کر استعمال کرتے ہیں کہ “بیٹا آپ نے بہت دندان شکن جواب دیا ، بیٹا اللہ آپ سے کام لے رہاہے ، بیٹا وہ ہمارا ہی شاگرد ہے لیکن اب راہ حق سے بھٹک گیا اور برباد ہوگیا ہے اور اس کی بربادی وگمراہی کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ تمہارے اکابرین یعنی ہم پر انگشت نمائی کررہاہے ؛ اس لیے تم جیسے لوگ ہی اسے سدھار سکتے ہیں” اب اس موجودہ طالب علم کے کان میں ان اکابرین کی اس طرح کی رس گھولتی ہوئی میٹھی آواز جائے اور وہ اسے سعادت اور فرض عین سمجھ کر اسے روبہ عمل نہ لائے ، یہ تو ممکن ہی نہیں ، لہذا مدارس کے یہ موجودہ طلبہ اپنے ان بے روزگار سینئرز رفقاء کرام کو صبح وشام سوشل میڈیا پر سب وشتم کرنا شروع کردیتے ہیں اور اس طرح استعمال ہوکر اپنی طالب علمی کا بیش قیمت وقت صرف کردیتے ہیں اور پھر جب وہ طالب علمی کی مدت پوری کرکے میدان عمل میں آتے ہیں تو ان کی حالت اپنے سیئرز سے بھی بدتر ہوتی ہے ، کیوں کہ زمانہ اور زیادہ مہنگائی کا ہوچکا ہوتا ہے اور ملازمت کی اور زیادہ قلت ہوچکی ہوتی ہے اور پھر ان کی آنکھ کھلتی ہے اور اند بھگتی بھی ختم ہوتی ہے اور پھر ٠٠٠٠٠٠٠

     اس لیے مدارس کے موجودہ طلبہ سے میں درخواست کررہاہوں کہ خدارا ان نام نہاد خیرخواہان اکابرین امت کے بہکاوے میں ہرگز نہ آئیں اور مدارس میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہنر سیکھنے اور سرکاری امتحانات دینے کو فرض عین سمجھیں ، ورنہ پوری زندگی ذلت ورسوائی اور ان نام نہاد خیرخواہان اکابرین امت کی چاپلوسی ، خصیہ برداری اور ان کا جھنڈا ڈھونے میں گزرے گی –

    میں نے موجودہ وقت کے اکابرین کے ساتھ “نام نہاد خیرخواہان اکابرین امت” کالفظ اس لیے بڑھایا ہے کہ واقعۃ یہ نام نہاد خیرخواہ ہیں ، ماضی میں ہمارے اکابرین دین کی خدمت کے لیے سب کچھ قربان کرنے کی تعلیم دیتے تھے تو وہ پہلے اپنا خود بھی سب کچھ قربان کرکے دیتے تھے ، گمنامی کی تعلیم دیتے تھے تو وہ خود بھی گمنامی کو پسند‌ کرتے تھے ، لیکن موجودہ دور کے اکابرین کی صورتحال مختلف ہے ، ان کے قول و فعل میں مکمل تضاد ہے ، اگر آپ موجودہ دور کے اکابرین کاجائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ کئی لاکھ کی گاڑی ان کے پاس ہے ، کئی شہروں میں کروڑوں کے اپنے مکانات ہیں ، کئی جگہ ان کے پاس مہنگی زمینیں ہیں ، ان کے بیٹے اور بیٹیاں یا تو دوسرے ممالک کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں یا پھر ہندوستان کے مہنگے ترین پرائیویٹ اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور وہ اپنی شیخی چمکانے کے لیے بیچارے غریب ، یتیم اور مسکین بچوں کو استعمال کررہے ہیں، ان نام نہاد خیرخواہان اکابرین امت کی حالت بعینہ وہی ہے جو سیاسی لیڈران کی ہوتی ہے ، بلکہ عہدہ کی ہوس میں یہ سرکاری اور سیاسی لیڈران سے بھی آگے بڑھے ہوئے ہیں ، عہدہ کے لیے بھائیوں سے، چچا سے، بھتیجا سے اور بڑے بڑے علم دوست حضرات سے لڑ بیٹھتے ہیں ، نااہلیت کے باوجود مرنے سے قبل اپنے عہدہ پر اپنے بیٹے کو قابض کردیتے ہیں ، یاکسی ایسے آدمی کو نائب بنادیتے ہیں جو توڑ جوڑ کر اور اصولوں کی دھجیاں اڑا کر ان کے عہدہ پر ان کے بیٹے کو اس عہدہ کے لیے اہل نہ ہونے کے باوجود کسی طرح قابض کردے ،جیساکہ *امارت شرعیہ بہار* میں ہوا ، ان سب کھیل کو وہ آسانی سے انجام دینے کے لیے مدارس کے غریب اور یتیم طلبہ کو استعمال کرتے ہیں اور غریب فیملی سے تعلق رکھنے والے یہ طلبہ استعمال ہونے پر خوب خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے پاس فلاں حضرت کی کال آئی تھی یا فلاں حضرت نے ہماری تعریف کی ، لیکن اسے یہ احساس نہیں ہوتا ہے کہ وہ استعمال ہورہاہے اور جس طرح وہ غریب اور غلام پیدا ہواتھا اسی طرح غریب اور غلام مرجاتا ہے ،

اس لیے مدارس کے موجودہ طالب علموں !

     اگر اپنی حالت بدلنا چاہتے ہو تو اسی وقت غفلت کی چادر چاک کرکے ہوش کا زرہ پہن لو ورنہ یاد رکھو کوئی تمہاری حالت کبھی بھی کسی بھی قیمت پر نہیں بدلے گا کیوں کہ اگر نام نہاد خیرخواہان اکابرین امت تمہارے حالات بدل دیئے تو وہ اپنی شیخی چمکانے کے لیے استعمال ہونے والے افراد کہاں سے لائیں گے ، نیز اگر تم جاگ گیے تو پھر مدارس ومساجد اور تنظیموں میں ان کی وراثت کیوں کر باقی رہے گی ، اس لیے یہ ہرگز ہرگز تمہاری ترقی نہیں چاہیں گے ،نہیں چاہیں گے

تمہیں اپنی حالت خود بدلنا پڑے گی ۔

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here