فلسطین میں پہلے انتفاضے کے خاکہ ساز: ابو شنب
عربی مجلہ “المجتمع” سے اردو ترجمہ
سالم برجیس ندوی
ابو شنب کو فلسطین میں سب سے پہلے انتفاضے کا اصل معمارسمجھا جاتا ہے۔ فلسطین کی مزاحمتی اسلامی تحریک (ح،م،ا،س) کے بانی شیخ احمد یسین نے انھیں اپنا نائب مقرر کیا تھا اور انتفاضے کی ابتداء سے قبل 1980ء کی دہائی میں انھیں غزہ کی پٹی میں دفاعی معاملات پر مامور کردیا تھا۔
اسلام کی راہ میں جان نثار کرنے والے اس عظیم سپوت کا نام انجینئر اسماعیل حسن محمد ابو شنب ہے۔ ان کی پیدائش 1950ء میں غزہ پٹی کے وسط میں واقع نصیرات پناہ گزیں خیمے میں ہوئی۔ انھوں نے 1975ء میں مصر کی منصورہ یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ میں ممتاز نمبرات سے گریجویشن مکمل کیا اور اپنی کلاس میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
1968ء میں ابو شنب اخوان المسلون سے وابستہ ہوگئے۔ اس وقت ان کی عمر محض 18/ برس تھی۔ وہاں سے تحریکی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے اور غزہ پٹی میں تحریک کے مضبوط نمائندہ بن گئے۔
ابو شنب نے 1982ء میں امریکہ کی کولورادو یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری سول انجینئرنگ میں ہی حاصل کی۔ معا بعد غزہ کی اسلامیہ یونیورسٹی کے شعبہ انجینئرنگ میں لکچرار ہوگئے۔ کچھ دنوں بعد شعبہ سماجیات اور ریگولر تعلیم میں ڈین کے عہدہ پر فائز رہے اور فیکلٹی آف اپلائیڈ سائنس کے چیئرمین بھی بنائے گئےاس کے علاوہ آپ غزہ کے ایک ریسرچ ادارے کے ذمہ دار بھی رہے۔
ابو شنب 1983ء-1987ء کے درمیانی عرصے میں مقبوضہ مغربی پٹی کے شمال میں واقع شہر نابلس کی النجاہ یونیورسٹی میں سول انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کے ڈین کی حیثیت سے کام کیا اور اس کے بعد غزہ کی امدادی تنظیم UNRWA کے ساتھ جڑ کر کام کرتے رہے۔
ان کے دوست و اقارب کا کہنا ہے: “شیخ یٰسین علیہ الرحمۃ سے ان کے مضبوط مراسم تھے۔ انھوں نے شیخ کے ساتھ مل کر 1987ء میں انتفاضہ کی تحریک کو تیز تر کرنے میں کردار ساز رول ادا کیا۔ ساتھ ہی شرپسند یہودی قابضین کے خلاف جنگی طرز عمل کی بنیاد رکھنے، مزاحمتوں کے نت نئے انداز اپنانے اور اس کے متنوع اختیارات کو جاری کرنے میں اپنا بے مثال کردار پیش کیا ہے۔
ان مختلف انتفاضوں میں اپنا کلیدی رول پیش کرنے کے علاوہ، شہید انجینئر نے اسلامی تحریک (ح،م، ا،س) کی سیاسی تنظیم کی سربراہی بھی کی۔ اس میں ان کی اصل ذمہ داری تحریک کے بیانات اور اس کے اغراض و مقاصد کی اشاعت، انتفاضہ کے دوران تحریک کی مقبولیت کو بڑھانے، غزہ اور مغربی کنارے میں اس کی کوششوں کو متحد کرنے اور مزاحمتی ڈھانچے کو مضبوط کرنا تھی۔ وہ یہ سمجھتے تھےکہ مزاحمت بلاشبہ جہاد کی اصل روح ہے، جو حقیقتا قدس اور مسجد اقصی کی باز یابی کا واحد حل ہے۔
بالآخر اس طرح کی جی توڑ اور جاں فزاں کوششوں کا ثمرہ انھیں یہ ملا کہ وہ 1989ء میں اسرائیلوں کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے۔ مگر نو سال کی لمبی مدت کے بعد 1997ء میں رہائی پاگئے ۔ پائے ثبات میں کسی طرح کی لغزش نہ دکھائی دی، بلکہ عزم و ارادہ میں پہلے سے زیادہ پختگی آگئی اورغزہ میں انجینئرز ایسوسی ایشن بورڈ کے چیئرمین بن گئے اور انجینئرز گروپ کے صدر بھی منتخب ہوئے۔
باکردار انجینئر شہیدؒ نے اسلامی تحریک کے ڈھانچے کو مضبوطی عطا کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ وہ فلسطینی اتھارٹی کی میٹنگوں میں اس تحریک کی مضبوط نمائندگی کرتے تھے۔ اس میدان میں ان کے علمی، سیاسی اور ٹریڈ یونین کے مستقل تجربات و تعلقات کے پیش نظر انھیں قوم کا اعتماد حاصل تھا۔
آسمان دنیا کا 53/ سالہ چمکتا ہوا ستارہ ابو شنب صہیونیوں کی فہرست میں سب سے اہم نا م تھا، جسے وہ کسی بھی حالت میں چاہتے تھے۔اس کے باوجود صہیونی دشمنوں کےسامنے شہید ابو شنب کے حوصلے کبھی پست نہیں ہوئے، بلکہ قومی اتحاد کو مضبوط کرنے اور فلسطینی ڈھروں کو متحد کرنے میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہے۔مگر ایک روز قسمت نے یاوری نہ کی اور21/ اگست 2003ء کو صہیونیوں نے اپنی عیاری سے بیک وقت پانچ جنگی طیاروں سے داغی گئی میزالوں کے ذریعہ انھیں شہید کردیا۔ اس وقت وہ اپنی کار میں سوا ہوکر غزہ کے مغربی علاقہ میں سفر کر رہے تھے۔