دنیا میں تخلیق انسانی کی ابتداء اگر ایک مرد سے ہوئی تو ٹھیک اس کے ساتھ ہی ایک عورت کو بھی وجود بخشا گیا اور انہی ایک مرد اور ایک عورت کے اشتراک سے انسانی مخلوق وجود میں آئی اور کرہ ارض پر پھیلتی چلی گئی۔ عورت کے نصف معاشرہ ہونے میں کسی کو کوئی شبہ نہیں، بلکہ کچھ علماء و دانشواران نے تو عورت کو مکمل معاشرہ تسلیم کیا ہے، اس دلیل کے ساتھ کہ آدھا معاشرہ عورت ہے اور جو دوسرا نصف معاشرہ ہے وہ بھی عورت ہی کی آغوشِ تربیت میں پروان چڑھتا ہے۔ عورت اگر نیک اور سلیقہ مند ہو تو پورا معاشرہ صالح اور باسلیقہ ہوگا، عورت باشعور ہو اور اس کا دل خدا کے خوف سے معمور ہو تو معاشرہ کو بھی آپ ایسا ہی پائیں گے، اور عورت اگر راہِ حق سے بھٹک جائے تو پھر ضلالت و گمراہی معاشروں کا مقدر ہوگی۔ اس لحاظ سے دنیا کے لئے جتنا اہم مردوں کا وجود ہے اسی طرح عورتوں کا وجود بھی لازم ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ روزِ ازل سے ہی مرد و عورت ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور دونوں ہی اس کارخانہءِ قدرت کو چلانے کے ذمہ دار ہیں۔
جیسے جیسے وقت آگے بڑھا نئی معلومات و ایجادات سے معیارِ زندگی کے ساتھ شعور و فکر کے دھارے بھی تیزی سے بہنے لگے۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ احساس اور یہ فکر بھی عام ہوتی گئی کہ مرد حاکم ہے اور عورت محکوم۔ جس کی بنا پر عورت کو اپنے عورت ہونے کی وجہ سے ظلم و زیادتی سے دوچار ہونا پڑا،حتی کہ تاریخ کے ہر دور میں عورت پر مظالم کی انتہا کو دیکھا اور پڑھا جا سکتا ہے۔
اس مناسبت سے عورتوں کے متعلق مذہب اسلام کی تعلیمات کو دیکھ لینا کارگر ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ مذہب پر عمل پیرا ہو کر ہی ایک انسان ہدایت و رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اچھے اعمال کو اختیار کرتا ہے اور اپنی دنیا و عقبی کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔
چنانچہ اسلام کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے عورت کو وہی مقام عطا کیا جس کی وہ مستحق ہے۔ قرآن کریم نے عورت کو مرد کا لباس قرار دیا ہے اور اس کی تخلیق کو اپنی نشانی بتایا ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے: “اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لئے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام و سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت و ہمدردی قائم کر دی۔ یقینا غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ (سورۃ الروم، آیت: ۲۱)
اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ اسلام نے عورت کو وہ سارے حقوق دئے جن سے وہ سماج میں وہی عزت اور مقام حاصل کر سکے جو مردوں کو حاصل ہے۔
مثال کے طور پر زندہ رہنے کا حق،عدل و مساوات کا حق، تعلیم کا حق،جائیداد میں حصہ پانے کا حق،شادی میں اپنی رضامندی کا حق،مہر کا حق،نان و نفقہ پانے کا حق، معاشی و اقتصادی آزادی کا حق وغیرہ۔
مذہب اسلام پر بہت سے مستشرقین اور غیر مسلم جہلاء یہ ایک بڑا بہتان لگاتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو مرد کے برابر درجہ نہیں دیا۔ جبکہ حقیقت اس کے بر خلاف ہے۔ اسلام نے عمل اور اجر کے اعتبار سے مرد و عورت دونوں کو مساوی رکھا ہے۔ رہی یہ بات کہ ہر چیز میں عورتیں مردوں کے مساوی ہونا چاہئے، تو یہ تصور خود ان غیر مسلموں کے یہاں بھی موجود نہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اس بات کی مکمل وضاحت فرما دی کہ کوئی شخص فقط اپنے مرد ہونے کی بنا پر اللہ کا قرب حاصل نہیں کر سکتا، قرب خدا کے حصول کے لئے پرہیزگاری اصل چیز ہے، خواہ وہ عورت اختیار کرے یا مرد۔
ارشاد باری ہے کہ “بےشک ہم نے تم لوگوں کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا فرمایا اور پھر تمہارے قبیلے اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو،در حقیقت اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے۔” (سورۃ الحجرات،آیت: ۱۳)
اسی طرح کثیر تعداد میں احادیث مبارکہ میں بھی عورت کے مقام و مرتبہ اور وقار کو بیان کیا گیا ہے۔
نمونے کے طور پر چند احادیث ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں:
حضرت ابو ھریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ میں لوگوں پر دو کمزوروں (یعنی) یتیم اور عورتوں کی حق تلفی کرنا حرام ٹھہراتا ہوں۔ (سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر: ۳۶۷۸)
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ججۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا: لوگو! عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ تم نے انہیں اللہ کی دی ہوئی امان کے ساتھ اپنایا ہے اور ان کی شرمگاہوں کو اللہ کے کلمے کے ذریعہ سے اپنے لئے حلال کیا ہے،تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص (مرد یا عورت) کو نہ بیٹھنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو،اگر وہ ایسا کریں تو انہیں ایسی ضرب لگاؤ جو سخت اور تکلیف دہ نہ ہو، اور تم پر معروف طریقے کے مطابق ان کے کھانے اور لباس کی ذمہ داری ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۹۵۰)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔ (جامع ترمذی، حدیث نمبر: ۳۸۹۵)
حضرت عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دنیا ایک متاع (فائڈہ اٹھانے کا سامان) ہے اور دنیا کی بہترین متاع نیک عورت (بیوی) ہے۔ (صحیح مسلم: حدیث نمبر: ۳۶۴۹)
حضرت معاویہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ کے پاس آ کر ایک شخص نے سوال کیا کہ شوہر پر عورت کا کیا حق ہے؟ اللہ کے نبیؐ نے جواب میں فرمایا: جب کھانا کھائے تو اسے بھی کھلائے، جب کپڑا پہنے تو اسے بھی پہنائے، اسے (بے وجہ) نہ مارے، اسے برا نہ کہے اور گھر میں اس سے علیحدگی اختیار نہ کرے۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۱۸۵۰)
ایک صحابی رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میرا ارادہ میں جہاد میں شرکت کرنے کا ہے اور اس سلسلے میں میں آپؐ سے مشورہ لینے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تمہاری والدہ (حیات) ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! آپؐ نے فرمایا: ان کے پاس ہی رہو اور ان کی خدمت کرو، کیونکہ جنت ان کے قدموں کے نیچے ہے۔ (سنن نسائی، حدیث نمبر: ۳۱۰۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ عورت جو پابندی سے پنج وقتہ فرض نماز ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے اور اپنی عزت کی حفاظت کرے تو اس کا بدلہ یقینا جنت ہے۔ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر: ۴۱۶۳)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے گھر بیٹی پیدا ہو اور وہ اسے تکلیف نہ دے اور نہ ہی اسے برا سمجھے اور نہ اپنے بیٹوں کو اس پر فوقیت دے تو اللہ اسے اس عمل کی وجہ سے جنت میں داخل فرمائے گا۔ (سنن ابی داؤد)
مندرجہ بالا احادیث سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام نے عورت کو ہر اعتبار سے عزت و احترام کا مستحق قرار دیا ہے۔ خواہ وہ ایک ماں ہو،بیٹی ہو،بیوی ہو،بہن ہو،رشتہ دار ہو یا غیر ہو، یہاں تک کہ مسلم ہو یا غیر مسلم ہو، ہر طرح عورت کا وجود اسلام کی نظر میں عظمت و وقار کا مستحق ہے۔
تاریخ میں ایسے بےشمار واقعات ملتے ہیں جس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی صحابہ و تابعین نے خواتین کی کس قدر عزت افزائی کی ہے اور مرتبہ میں ان کو مردوں کے برابر ہی تسلیم کیا ہے۔ یقینا یہ مذہب اسلام کا خاصہ ہے کہ اس نے عورت کو ظلم و بربریت کے اندھیرے جنگل سے نکال کر امن و آشتی اور عزت و عصمت کا گھر فراہم کیا۔ مسلم خواتین کو اس احسان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔