طلوع مشرق اور غروب مغرب: ایک جائزہ

کتاب : طلوع مشرق و غروب مغرب

مصنف : مختار شنقیطی

مترجم : محی الدین غازی

صفحات : ۸۰

پبلشر : ھدایت پبلیکیشنز نئی دہلی

تعارف از آصف جاوید

مختار شنقیطی موجودہ اسلامی مفکرین میں سر فہرست ہیں، علوم اسلامیہ کے ساتھ سماجی علوم پر بھی گہری نظری ہے، اسلام ، اسلامی تحریکات اسلامی سیاسیات پر خوب لکھا ہے۔ زیر نظر کتاب دراصل عربی میں لکھی گئی ہے جس کا ترجمہ معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹرمحی الدین غازی نے کیا، ڈاکٹر غازی کا علمی قد بہت اونچا ہے مگر موضوع کی پیچیدگی اور تکنیکیت نے جگہ جگہ عبارتوں کو پیچیدہ بنا دیا ہے ، لیکن یہ پیچیدگی بہترین علمی مواد کی وجہ سے ذوقین قاری کے لئے بالکل درد سر نہیں بنتی۔

شنقیطی نے اس مختصر کتاب میں بین الاقوامی تعلقات کی نوعیت ماہیت اور مستقبل پر مفصل گفتگو کی ہے۔ انکا ماننا ہے جیسا کہ قرائن سے ثابت ہے کہ عالم مغرب کا سورج بہت جلد غروب ہونے والا ہے اور عالمی طاقت کا یہ سورج مشرق سے طلوع ہوا چاہتا ہے۔ مشرق سے انکی مراد عالم اسلام نہیں بلکہ پورا ایشیا ہے بالخصوص چین روس ہندوستان وغیرہ جیسے بڑے ایٹمی و معاشی ممالک۔

کتاب میں ماہرین کی پیشن گوئیاں، حالات و واقعات کی روشنی مین یہ بات مضبوطی کے ساتھ پیش کی گئی ہے کہ بہت جلد عالمی طاقت کا شفٹ ہونے والا ہے، اس تناظر میں شنقیطی نے عالم اسلام کی پوزیش کی تعیین کرنے کی کوشش کی ہے،عالم اسلام کا سیاسی جغرافیا اور اسکی جغرافیائی سیاست کو مد نظر رکھتے ہوۓ اس خطے کی اہمیت کی وضاحت کی ہے اور مستقبل کی دنیا میں عالم اسلام کو بلند و بالا یا مضبوط پوزیشن میں آنے کے لئے کن اہم خطوط پر کام کرنا ہے کی طرف توجہ دلائی ہے۔

مختلف سیاسی جغرافیا کے ماہرین نے عالم اسلام کی کیا پوزیشن طے کی ہے؟ اور اسلامی خطے کو کس اینگل سے دیکھا ہے؟ کا جواب دیتے ہوۓ لکھتے ہیں ؛کسی نے عالم اسلام کو متنازعہ خطہ سے تعبیر کیا ہے تو کسی نے grand chessboard سے بعض نے اسے ممتاز تہذیبی اکائی کے طور پر دیکھا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ سرحدیں خونی ہیں تو کسی نے اس درمیانی خطہ اور کسی نے Rimland کہہ کر پکارا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام جغرافیا نظری اور عملی دونوں پہلوؤں سے لوٹ مار کی کس کیفیت سے دو چار ہے ؟

غروب مغرب اور طلوع مشرق کے تناظر میں لکھتے ہیں” عالم اسلام پر لازم ہے کہ وہ فوری طور پر خودکار قوت مدافعت کی تشکیل شروع کردے “

اس خودکار قوت مدافعت کی تشکیل اسٹریٹجک ادارے کی وحدت کو یقینی بناۓ بغیر عالم اسلام مشرقی قوتوں اور مغربی قوتوں کے درمیان چکنا چور ہونے والا (crush zone) بن جاۓ گا۔

اس حوالے سے مصنف مسلمانوں کو اپنی تاریخ سے سبق لینے کی صلاح دیتے ہیں لکھتے ہیں ” اسلام کا قدآور پرندہ مشرق ق مغرب کے درمیان میں رہنے کی وجہ سے اپنی طویل تاریخ میں سمٹنے اور پھیلنے کی حالتوں سے گذرتا رہا ہے۔ طاقت کے زمانہ میں وہ پھیلتا اور اپنے بازووں کو مشرق و مغرب کی طرف پھیلاتا ہے جیسا کہ اولین اسلامی فتوحات مکے زمانے میں ہوا، پھر عثمانی سلطنت کے عروج کے دور میں ہوا “۔ گویا کہ عالم اسلام کی اسٹریٹجک پوزیشن اس قسم کی ہے کہ اس کے لئے offensive realistic approach اپنانے میں ہی بھلائی ہے۔

مصنف نے عالمی اسلامی اسلامی طاقت کی تشکیل کے لئے یوروپین یونین کے تجربے سے سبق لینے کی صلاح دی ہے۔ برّی عالم اسلام اور بحری عالم اسلام کے درمیان فاصلہ کے درمیان فاصلہ کی موجودگی کو اسٹریٹجک ادارے کی وحدت میں رکاوٹ بننے کے عذر کو اس دلیل کی بنیاد پر مسترد کیا ہے کہ “جیسے وہ وسیع و عریض بحر اعظم جو شمالی امریکا کو یوروپ سے جدا کرتے ہیں اور آسٹریلیا نیوزی لینڈ کو باقی مغرب سے جدا کرتے ہیں اس میں رکاوٹ نہیں بن سکتے ویسے ہی عالم اسلام کے اجزاء کے درمیان موجود مسافتیں بھی رکاوٹ نہیں بن سکتی اور پھر عالم اسلام کے درمیان اتنی مسافت ہے بھی نہیں۔

   لکھتے ہیں کہ اسلامی وحدت کے موضوع پر سب سے زیادہ سنجیدہ نظریہ سازی ” عبدالرحمن کواکبی، عبدالرزاق سنہوری اور مالک بن نبی نے پیش کی ہے۔ شنقیطی کہتے ہیں یہ تین مفکرین ایسے ہیں جنہوں نے اسلامی وحدت کے عملی پہلووں پر زور دیا ہے۔

کواکبی نے امریکہ اور جرمنی کی فیڈرل وحدت سے خیال اخذ کیا، سنہوری نے بین الاقوامی تنظیم جو کہ عظیم جنگوں کے نتیجہ میں وجود میں آئیں سے اور مالک بن نبی نے برطانوی دولت مشترکہ سے خیال اخذ کیا۔

اسلامی وحدت کا کشش ثقل کے مرکز کی تعیین کرتے ہوۓ مالک بن نبی کے حوالے سے لکھتے ہیں “معاصر عالم اسلام کا مرکزِ کششِ ثقل ایشیا کے جنوب اور مشرق میں منتقل ہوگیا وہ متعین طور پر پاکستان ہندوستان انڈونیشیا اور ملیشیا کا نام لیتے ہیں” لیکن بحر حال یہ ایک سماجی نوعیت کا تجزیہ ہے نہ کہ سیاسی نوعیت کا۔

شام کے مفکر محمد مبارک نے مالک بن نبی کے اس تجزیہ پر تحفظ کا اظہار کیا ہے اور اس پر زور دیا ہے کہ اسلامی تہذیبی فضا میں عالم عرب کو بہر حال مرکزیت حاصل ہے کیونکہ دین اسلام کا عربی زبان اور عالم عرب سے بہت گہرا رشتہ ہے۔

اسلامی وحدت کے مرکز کے بارے میں سموئیل ہنٹنگٹن کا کہنا ہے کہ عالم اسلام کا مرکز ترکی ہے ۔ ہنٹنگٹن نے چھ اسلامی ممالک کا جائزہ لیا کہ ان میں سے کس کے اندر معاصر تہذیبی مرکزی ریاست کا کردار ادا کرنے کا امکان زیادہ ہے؟ اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ترکی کے پاس تاریخ ہے، آبادی ہے، معاشی ترقی کی متوسط سطح ہے ، داخلی وطنی استحکام ہے عسکری روایات اور اہلیت ہے جس کی بنا پر وہ مرکزی ریاست بن سکتا ہے۔

شنقیطی کے مطابق ہنٹنگٹن کی رائے زیادہ مضبوط ہے، مگر شنقیطی محض ایک مرکز کے قائل نہیں انکا ماننا ہے کہ ایک سے زیادہ مرکزی ریاستیں اور ایک سے زائد اسٹریٹجکل ٹھکانے درکار ہیں ، تاکہ عالم اسلام اپنے قدموں کو مضبوطی سے جما سکے، مصنف کا ماننا ہے کہ عالم اسلام اس قدر بڑا ہے کہ اس کو ایک سے زائد ٹھکانے درکار ہیں۔

اپنی بات کا اختتام اس بات پر کرتے ہیں کہ عالم اسلام کے لئے ضروری ہے کی موجودہ زمانہ میں عالمی قوتوں کی بدلتی پوزیشن سے صحیح آگہی حاصل کرے اور درست اسٹریٹجی کے ساتھ ان سے تعامل کرے۔ اس کتاب کا آخری پیغام جیسا کہ مترجم کہتے ہیں یہی ہے کہ

ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں

ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here