زندگی تجھ سے الگ طرزِ بیاں چاہتا ہے
وہ تخاطب کے لیے نوکِ سناں چاہتا ہے
ایک اک اشک مرا اذن روانی مانگے
ایک اک درد مرا آہ و فغاں چاہتا ہے
ذرہء خاک بھی جھڑنے نہیں دیتا ہے کہ وہ
لمس در لمس مرا جسم جواں چاہتا ہے
تیغِ اعدائے محبت مرے شانوں کو نہ دیکھ
میری بانہوں میں کوئی اپنی اماں چاہتا ہے
ڈھلتا جاتا ہوں ترے ساتھ سفر کرتے ہوئے
اور کیا مجھ سے تو اے وقت رواں چاہتا ہے۔