مغلیہ حکومت کی شام زوال کو طلوع سحر میں تبدیل کرنے والی دو عظیم شخصیت ، غالب و سر سید کے خوابوں کا حسیں تاج محل ” علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ” علم و ادب کا وہ ٹھنڈا اور میٹھا چشمہ بن گیا ہے جو جنم جنم کے علمی پیاسوں کی پیاس کو بجھاتا اور ان کی نسلوں کو سیراب کرتا چلا جارہا ہے ۔ ماہ اکتوبر کی آمد سے چمنستان علم و ادب میں *عید علیگ* کی تیاریاں شباب پر پہونچ جاتی ہے ۔ ہر طرف چہل پہل اور مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے ۔ خون جگر سے تعمیر کئے گئے علم و ادب کے تاج محل کے درو دیوار ، رنگ برنگے قمقموں سے جگمگا اٹھتے ہیں ۔چمن کے ہر شاخ و گل کی بھینی بھینی خوشبو سے دل معطر ہو اٹھتا ہے ۔ درختوں کے حسن اور پھولوں کی لطافت سے ایک ایسی دنیا آباد ہوجاتی ہے جہاں آکر انسان اپنے سارے غم بھول جاتاہے ۔ ملک در ملک ، قصبہ در قصبہ ، شہر در شہر ، ہر جگہ *علیگ برادری بابائے قوم ، محسن ملت سر سید احمد خان کی یوم پیدایش پر* ان کی قربانیوں کو یاد کرکے ان کے پیغام کو پوری دنیا کے گوشے گوشے تک پہونچانے کا عزم کرتے ہیں ۔ سر سید ایک شخصیت کا نام نہی بلکہ ایک عہد ساز شخصیت کا نام ہے ، ایسی شخصیت برسوں میں نہی بلکہ صدیوں میں پیدا ہوتی ہے ، جو لوح ایام پر اپنی انمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہے ۔ دنیا میں بہت ساری شخصیات پیدا ہوئیں مگر ان میں کچھ لوگ ایسے بھی گزرے ہیں جنہیں آج تک بھلایا نہ جاسکا ، کیوں کہ ان کی شخصیت مختلف اوصاف کی حامل تھیں ، انہیں میں سے ایک سرسید کی ذاتِ گرامی بھی ہے۔
*مت مجھکو سہل جانو پھرتا ہے فلک برسوں*
*تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں*
سر سید مؤرخ بھی تھے ، مدبر بھی تھے ، قانون داں بھی تھے ، سیاستدان بھی تھے ، مصلح بھی تھے ، ماہر تعلیم بھی تھے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ دنیائے انقلاب میں وہ عظیم انسان تھے جنہوں نے سسکتی ، بلکتی ، روتی اور دم توڑتی قوم کی تقدیر بدل ڈالی۔
اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کی ناکام کوشش کے بعد مسلمانوں کا جو قتل عام ہوا ، انگریزوں نے مسلمانوں پر جو قہر ڈھائے ہندوستان میں وہ کسی سے مخفی نہی ۔
سر سید نے ان حالات میں ابنائے وطن کی دست گیری کی ۔اس زمانے میں سر سید نے سر کشئ ضلع بجنور لکھی۔ اسباب بغاوت ہند لکھی ۔تبیین الکلام فی تفسیر التوراۃ والانجیل علی ملۃ اسلام لکھی۔
ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کی کتاب ” آؤر انڈین مسلم ” کا جواب لکھا۔ صوبہ متحدہ کے گورنر ” ولیم میور ” کی جانب سے جناب نبئ کریم محمد الرسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخانہ الفاظ پر مشتمل کتاب ” لائف آف محمد ” کا جواب ” الخطاب الاحمدیہ ” کے نام سے لکھا ۔ سر سید نے اس زمانے میں اپنی تحریروں سے جس بصیرت اور جس جرات کا ثبوت دیا ہے اس کو سلام پیش کرتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں ۔
*بندہ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے*
*قوت فرماں رواں کے سامنے بے باک ہے*
آج ہر گاؤں میں اسکول ہے، ہر ضلع میں کالج ہے، ہر صوبے میں یونیورسٹیاں ہیں ۔ لیکن اس زمانے میں جب کے مسلمانوں کا نظام تعلیم بکھر گیا تھا ۔ صرف اور صرف ایک نظام تعلیم تھا جو ملازمت اور ترقی کے نئے راستے دکھا رہا تھا ۔ برادران وطن ہندو قوم نے آگے بڑھ کر اسے قبول کرلیا ، لیکن مسلمانوں نے اس کی مخالفت کی ، مخالفت ہی نہی کی بلکہ شدت سے مخالفت کی ۔ جس سال سر سید کی پیدائش ہوئ یعنی اٹھارہ سو سترہ میں ، اس سال بر صغیر کا پہلا کالج کلکتہ میں ” *ہندی کالج* ” کے نام سے قائم ہوا ۔ جو آج پریسیڈینسی یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اس کالج میں مسلمانوں کا داخلہ ممنوع تھا ۔ اٹھارہ سو پینتیس میں خود مسلمانوں نے انگریزوں کو لکھ کر دیا تھا کہ ہمیں تمہاری انگریزی تعلیم نہی چاہئیے اور اس محضر نامہ پر ایک دو نہیں بلکہ پورے آٹھ ہزار مسلمانوں نے دستخط کئے تھے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ برادران وطن ماڈرن ایجوکیشن حاصل کرکے اعلی مناصب اور اعلی عہدوں پر پہونچ گئے اور مسلمان حسرت سے دیکھتے رہ گئے ۔
*اغیار مہر و ماہ سے آگے گزر گئے*
*الجھے ہوئے تھے صبح کی پہلی کرن سے ہم*
اٹھارہ سو پچھتر میں جب سر سید نے علی گڑھ کے اندر مدرستہ العلوم قائم کیا تو اس وقت پورے ہندوستان میں صرف بیس مسلمان گریجویٹ تھے۔ جبکہ برادران وطن کی یہ تعداد ساڑھے آٹھ سو تھی۔ سر سید نے ان حالات میں اپنی تحریک کو جاری کیا اور ایک دو نہی بلکہ پورے ملک کے مسلمانوں کو دیوانہ وار پکارا اور آواز لگائی ۔
رئیسوں سے کہا تم اپنی طاقت سے اپنی حکومت نہی بچا سکے ، اب اپنی عقل و فراست سے کام لو ۔ اپنے بچوں کا مستقبل بناؤ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ تم انہیں ماڈرن تعلیم دو۔ان کو زمانے کے حالات سے روشناس کراؤ۔ یہ بات الگ ہے کہ تم میری بات نہ سمجھو ، مگر زمانہ بدل رہا ہے ، پھول پتھر پر کھل رہا ہے ، چراغ آندھی میں جل رہا ہے ۔ اب ان پرانی حویلیوں کے قصیدے لکھنے سے کیا فائدہ ، نئے زمانے کی روشنی لو ، زمانہ کروٹ بدل رہا ہے ۔
سر سید نے صرف تقریروں اور تحریروں کے ذریعے قوم کو نہی جگایا بلکہ ایک معیاری کالج علی گڑھ میں قائم کرکے دکھایا ۔
سر سید نے ماضی پرستوں کو حال سے روشناس کراکر مستقبل کی فکر کرائ ۔ مسلمانوں کی زبوں حالی پر رونے کے بجاۓ اس کے حل کے اسباب تلاش کرنے کا طریقہ بتلایا ۔ بدلتے حالات کے ساتھ خود کو بدلنا اور حکومت وقت کے ساتھ باغیانہ نہی بلکہ حکمت کا پہلو اختیار کرنا سکھایا ۔ پوری قوم کو ایک جسم مان کر اس کے مرض کی تشخیص کی ۔ اور اس کا علاج جدید تعلیم کو بتایا۔
ایک طرف اسباب بغاوت ہند لکھ کر انگریزوں کی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا تو دوسری طرف سائنٹفک سوسائٹی قائم کرکے لوگوں میں سائنسی رجحان کو بڑھایا تو تیسری طرف تہذیب الاخلاق لکھ کر ایک غافل قوم کی اصلاح کا بیڑا اٹھالیا ۔غرض یہ کہ اس شخص نے خود کے لئے کچھ نہ کیا اور اپنے آپ کو قوم اور ملک کی خدمت کے لئے وقف کردیا یہاں تک کہ اس شخص نے قوم کی خاطر اپنے پیروں میں گھنگھرو باندھے ، در در گیا ، چندا مانگا ، لوگ چندا دیتے دیتے تھک گئے مگر وہ شخص چندا مانگتے مانگتے نہ تھکا ۔ یہاں تک کہ نواب رام پور سے چندا لینے کے لئے وہ بھکاریوں کی صف تک میں جا بیٹھے ۔ طوائفوں سے چندا مانگنے میں بھی انہیں عار محسوس نہی ہوئ ۔ اس سے آگے بڑھ کر کے سر سید نے یونیورسٹی جامع مسجد کا پتھر خرید نے کے لئے اپنی بیوی کے تمام زیورات فروخت کرڈالے ۔ سرور کونین حضرت محمد مصطفیٰ صل اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے ولیم میور کو جواب دینے کے لئے اپنا گھر تک گروی رکھ دیا۔
سر سید نے قوم و ملّت کے لئے تن من دھن کی بازی لگادی۔ لاکھ مخالفتوں کے باوجود سر سید نے اپنے مشن کو نہ بدلا اور دیکھتے دیکھتے مدرستہ العلوم ، محمڈن اورینٹل کالج سے ہوکر آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی شکل میں ایک شاندار ، چمکدار اور پھلدار درخت کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔
*سینچا ہے اسے خون سے ہم تشنہ لبوں نے*
*تب جاکے اس انداز کا میخانہ بناہے*
سر سید نے اٹھارہ سو ستاون کے بعد مسلمانوں کو ایک نئی زندگی بخشی ۔ انہوں نے مذہب اسلام پر ہونے والے حملوں کا جواب جوش سے نہی بلکہ ہوش سے دینا سکھایا ۔ یہاں تک کہ ولیم میور کو اپنا قائل کرلیا ۔ سر سید نے اپنی مختصر سی زندگی میں بے شمار کارہائے نمایاں انجام دئیے ۔ ضرورت ہے کہ ہم ان کی زندگی کو پڑھیں ، سمجھیں اور اپنی عملی زندگی میں اس کو جگہ دیں۔ اپنے وقت کی قدر کے ذریعے علم کے میدان میں اتنا آگے بڑھ جائیں کہ ملک وقوم کی قیادت کو اپنے ہاتھ میں لے کر پوری دنیا سے ظلم و ستم کا خاتمہ کردیں۔ اور پوری دنیا کو یہ بتادیں کہ
*جو ابر یہاں سے اٹھے گا وہ سارے جہاں پر برسے گا*
*خود اپنے چمن پر برسے گا ، غیروں کے چمن پر برسے گا*
*برسے گا برسے گا برسے گا*